بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان کی برسی پر ان کے مجاہدانہ صحافتی کردار اور تاریخی حقائق کی ایک دستاویزی تحریر حکیم ولی الرحمن ناصر ظفر الملت مولانا ظفر علی خان اور ان بلند پایہ اکابر میں سے تھے جنہیں قدرت کسی قوم میں اس وقت پیدا کرتی ہے جب وہ قوم زوال میں ہو اور قدرت کو اس کی تقدیر بدلنا مقصود ہو۔ نپولین بونا پاٹ جو انقلاب فرانس کا ہیرو ہے اور جس نے فرانس کی قسمت بدل کر رکھ دی اس کا مشہور مقولہ ہے ”میں اس وقت پیدا ہوا جب میری قوم عالم نزع میں تھی چنانچہ ظفر علی خان بھی اس سر زمین پنجاب میں جو رجعت پسندی اور کاسہ لیسی کے لئے بدنام رہی ہے اس وقت پیدا ہوئے جب یہاں انگریز اپنی قہرمانی طاقت کے ساتھ حکمران تھا۔ ظفر علی خان نے یہاں اس وقت نعرہ حریت اور علم آزادی بلند کیا جب یہاں آزادی کا نام لینا خود کو حکومت کے منہ میں دھکیلنے کے مترادف تھا اور آزادی کے نام تک سے لوگ ناآشنا تھے لیکن مولانا ظفر علی خان اندیشہ سودو زیاں سے بے نیاز ہو کر اس آگ میں کود پڑے۔ علامہ اقبال نے اےسے ہی جاں بازوں کے متعلق فرماےا ہے: پختہ ہوتی ہے اگر مصلحت اندیش ہو،عقل عشق ہو، مصلحت اندیش، تو ہے خام بھی بے خطر کود پڑا، آتشِ نمرود میں عشق عقل ہے محو تماشائے لبِ بام ابھی چنانچہ مولانا ظفر علی خان نے ایسے ہی مجاہدانہ جذبے سے سرشار ہو کر برطانوی سامراج کے خلاف علم جہاد بلند کیا جس کی سلطنت کی عالمگیری کے متعلق یہ مشہور تھا کہ اس کی سلطنت کی حدود مطلع خورشیدسے لے کر غروبِ آفتاب تک ہے۔ مولانا نے اس وقت تک دم نہ لیا جب تک اتنی بڑی قہرمانی اور جبروتی طاقت نے ہر قسم کے سازو سامان کی فراوانی کے باوجود شکست قبول کر کے یہاں سے بوریا بستر لپیٹ کر راہ فرار اختیار نہ کر لی۔ جن لوگوں نے 1912ءسے لے کر 1947ءیعنی قیام پاکستان تک بر صغیر پاک و ہند کے سیاسی مدوجزر کر دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ ظفر علی خاں اس سیاسی خارزار میں ایک عظیم رہنما کی حیثیت سے پےش پیش نظر آتے ہیں۔ اس دور کا کوئی شخص ظفر علی خان کی سیاسی ملی اور صحافتی خدمات کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ وہ اس دور کے مسلمانوں کے قافلہ سالار تھے۔ مفکر اسلام شاعر مشرق حکیم الامت علامہ اقبال نے اس مجاہدملت کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان کے قلم کو غازی اتاترک، مصطفی کمال پاشا کی شمشیر آبدار کے بانکپن سے تعبیر کیا تھا اور ان کی سیاسی خدمات کو ناقابل فراموش قرار دیا تھا۔ ”مولانا ظفر علی خان نے انگریز کپتان کے رعونت آمیز طرز مخاطب کا جواب دیتے ہوئے کہا ”میں تمہارا بارگیر (سائیں) نہیں ہوں کہ تمہارے گھوڑے کی لگام پکڑوں“ بتدا میں آپ کا نام خداداد خان رکھا گیا لیکن آپ کے والد گرامی مولوی سراج الدین احمد نے آپ کی تاریخ ولادت پر غور کرتے ہوئے آپ کا نام تبدیل کر دیا ”حکیم الامت علامہ اقبال نے مولانا کے قلم کو غازی اتاترک مصطفےٰ کما ل پاشا کی شمشیر آبدار کے بانکپن سے تعبیر کیا ظفر الملت مولانا ظفر علی خان کشور پنجاب کے مردم خیز خطہ ضلع سےالکوٹ کے ایک چھوٹے سے گاﺅں مہر تہہ میں (جسے اب مرتہان دا کوٹ) کہتے ہیں پیدا ہوئے اور 27نومبر 1956ءمیں کرم آباد میں (جو سودھرہ سے جانب غرب تین میل کے فاصلہ پر سےالکوٹ سے وزیر آباد جانے والی جرنےلی سڑک پر واقع ہے ، وفات پائی اور وہیں مسجد کے عقب میں جانب شمال دفن ہیں۔ ان کے پہلو میں ان کی اہلےہ محترمہ اور ان کے فرزند اختر علی خان دفن ہیں۔ یہ تینوں قبریں کچی ہیں جن پر حسرت برس رہی ہے اور جو اہل وطن کی بے حسی پر نوحہ کناں ہیں۔ مولانا ظفر علی خان نے 83برس کی عمر پائی۔ شروع میں آپ کا نام خداداد خان رکھا گےا لےکن آپ کے والد گرامی مولوی سراج الدےن احمد نے تاریخ ولادت پر غور کیا، تو سال ہجری کی رعایت سے ظفر علی کا تاریخی نام (بحساب ابجد 1290ہجری) سے بدل دیا اور مولانا اسی نام سے مشہور عالم ہوئے۔ مولانا ظفر علی خان کے والد مولوی سراج دین احمد خان اور دادا کرم الہیٰ خان مشرقی علوم کے معتبر عالم تھے انہوں نے ہوش سنبھالتے ہی خاندانی روایات کے مطابق فارسی اور عربی کی تعلیم اپنے دادا کرم الٰہی خان سے حاصل کی۔ مولانا نے مڈل تک مشن ہائی سکول وزیر آباد میں تعلیم پائی ان کے پھوپھا محمد عبداللہ خان مہندر کالج پٹیالہ میں عربی کے پروفیسر تھے۔ والد نے مولاناکو ان کے ہاں بھجوا دیا جن کی زیر نگرانی انہوں نے پٹیالہ سے میٹرک کیا پھر علی گڑھ چلے گئے ۔وہاں 1892ءمیں ایف اے پاس کیا۔ والد ان دنوں سری نگر و کشمیر میں محکمہ ڈاک کے ناظم اعلیٰ منصب پر سر فراز تھے۔ انہوں نے وہاں طلب کیا۔ اس وقت ان کی عمر سولہ سال تھی۔ انہوں نے ملازم کرا دیا۔ انہی دنوں کا واقعہ ہے کہ ظفر علی خان گلمرگ (سری نگر) کے ڈاک خانہ کے احاطے میں ایک بنچ پر بیٹھے تھے کہ ایک انگریز کپتان گھوڑے پر سوار ڈاک خانہ میں آیا۔ ان دنوں انگریزوں کی رعونت اپنے پورے شباب پر تھی۔ وہ ہندوستانیوں کو اپنے زر خرید غلاموں سے بھی بدتر سمجھتے تھے۔ وہ بات بات پر ہندوستان کو ذلیل کرتے انہیں ٹھوکریں لگاتے اور ان سے بیگار لیتے۔ اس معاملہ میں وہ کسی ہندوستانی رئیس اور عام آدمی میں کوئی فرق نہ کرتے اور سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکتے تھے۔ یہ انگریز کپتان ڈاک خانہ کے سامنے گھوڑے سے اترا، اور مولانا ظفر علی خان کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگا۔ ”ہے چھوکرا! ادھر آﺅ گھوڑے کا لگام پکڑو ہم ابھی آتا ہے۔ ظفر علی خان نے اس انگریز کپتان کے رعونت آمیر طرز مخاطب کا جواب اکڑ کر دیا۔ ”میں تمہارا بارگیر (سائیں) نہیں ہوں، کہ تمہارے گھوڑے کی لگام پکڑ کر کھڑا رہوں“۔ انگریز کپتان یہ غیر متوقع جواب سن کر بہت جز بز اور لال پےلا ہوا اور کہنے لگا ایک ہندوستانی چھوکرے کی یہ جرات و جسارت کہ حکمران قوم کے ایک افسر کے حکم کو ٹھکرا دے اور اس طرح اس کی توہین و تذلیل کرے۔ وہ بڑبڑا تا ہوا چلا گیا۔ انگریز کپتان نے اس واقعہ کی شکایت ریاست کے انگریز ریذیڈنٹ سے کی کہ پوسٹ ماسٹر کے چھوکرے ظفر علی خان نے میری حکم عدولی کر کے میری توہین کی ہے اگر اسے اس گستاخانہ جرم کی سزا نہ دی گئی تو ہندوستانیوں کے حوصلے بلند ہو جائیں گے اور وہ بڑے سے بڑے انگریز حاکم کی توہین و تذلیل کرنے سے نہیں چوکیں گے۔

چنانچہ ریذیڈنٹ نے مولوی سراج الدین کو طلب کیا۔ مولوی سراج الدین نے بڑی مشکل سے منت سماجت کر کے بات کو ختم کرایا اور ظفر علی خان سے کہا کہ بیٹا تم نے میٹرک پاس کر لیا ہے۔ میں نے تمہارے لئے کشمیر کونسل کے رکن رائے بہادر لالہ بھاگ رام کی سفارش حاصل کر لی ہے۔ تمہیں پنجاب گورنمنٹ میں اچھی ملازمت مل جائے گی۔ لہٰذا تم لاہور چلے جاﺅ۔ مولوی سراج الدین اپنے بیٹے کو کسی بڑے سرکاری عہدے پر دیکھنے کے متمنی تھے لیکن ظفر علی خان انگریز کی نوکری کسی قیمت پر نہیں کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے انگریز کی ملازمت کرنے سے صاف انکار کر دیا اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے پھر علی گڑھ چلے گئے اور 1894ءمیں بی اے پاس کیا۔ پروفیسر آرنلڈ جن کو علامہ اقبال نے ”بانگ درا“ میں منظوم خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ ان دنوں علی گڑھ میں پروفیسر تھے۔ ان کے علاوہ علامہ شبلی اور مارلیسن ایسے ماہرین تعلیم وہاں آپ کے استاد تھے۔ ان کی شاگردی میں علم و ادب کا فیض حاص کیا۔ ”مولانا ظفر علی خان نے اسی وقت نعرہ حریت اور علم آزادی بلند کیا جب یہاں آزادی کا نام لینا خود کو موت کے منہ میں دھکیلنے کے مترادف تھا“ ظفر علی خان کے ہم جماعتوں میں برصغیر پاک و ہند کے مشہور ریاضی دان ڈاکٹر سیر ضیاءالدین احمد اور میر محفوظ علی بدایلونی شامل تھے۔ مولانا شوکت علی ان سے ایک جماعت آگے اور مولانا محمد علی جوہر ایک جماعت پیچھے تھے۔ مولانا کا شمار علی گڑھ کالج کے ذہین ترین طلباءمیں ہوتا تھا۔ ان کی عمر اٹھارہ سال کی تھی کہ کالج میں سر سید احمد خان کی صدارت میں ایک قومی جلسہ ہوا جس میں ظفر علی خان نے فارسی میں سر سید احمد خان کا ایک قصیدہ پڑھا جسے سن کر حاضرین عش عش کر اٹھے۔ اساتذہ نے بڑ ھ چڑھ کر داد دی۔ سر سید احمد خان نے ان کو گلے لگا لیا۔ اس فارسی قصیدے کے چند اشعار درج ذیل ہیں۔ مسخر کرد نظم کشور جادو بیانی را بدام آورد طبعم، حےدوحثی معانی را بمیدان سیدے آور، کمرانہ ہمتش محکم کہ میں دانست یکسر چارہ درد نہانی را جہاز قوم آب از اشک ہائے چشم او باید فلک چشم تو گاہے دیدہ است ایں باغبانی را ظفر علی خان جو کھیل کے میدان میں کالج بھر میں ایک امتیازی حیثیت حاصل کر چکے تھے، ادب کی محفلوں میں بھی آفتاب بن کر چمکنے لگے وہ جب تک کالج میں رہے کالج میگزین کی ادارت کے فرائض انجام دیتے رہے۔ بی اے کرنے کے بعد علامہ شبلی کی تحریک پہ نواب محسن الملک کے سےکرٹری ہو کر ممبئی چلے گئے اور اسی دوران ایک عرصہ تک ”السٹرٹےڈویکلی“ اور ٹائمز آف انڈیا میں مقالات لکھتے رہے ۔اس سے انہیں کافی شہرت حاصل ہوئی پھر علامہ شبلی اور نواب محسن الملک کے مشورہ سے حیدر آباد دکن چلے گئے۔ وہاں اس وقت نواب افسر الملک افواج نظام کے سپہ سالار تھے ان کے ماتحت فوج میں ملازم ہو گئے نواب صاحب اعلیٰ درجے کے نیزہ باز تھے۔ ایک روز نواب افسر جنگ جوانوں کی نیزہ بازی اور شہسواری کے جوہر دیکھ رہے تھے۔ ظفر علی خان بھی پاس ہی کھڑے تھے۔ فوجی جوانوں کی میخ اکھاڑنے کے مقابلہ میں مصروف جہد دیکھا تو طبیعت مچل گئی۔ دل میں جوانی کے ولولوں نے انگڑائی لی اور شباب کا خون جوش مارنے لگا۔ آگے بڑھے اور اختر الملک سے یوں گویا ہوئے۔ تو دستگیر شدرے خضر پے خجستہ کہ من پیاوہ می روم و ہمرہان سوار انند افسر جنگ مسکرائے ، فوراً گھوڑا اور نیزہ حاضر کرنے کو کہا۔ حکم کی تعمیل کی گئی۔ پھر مولانا سے مخاطب ہو کر کہا۔ ”ہمیں میدان و ہمیں گوئے“ مولانا بلا تامل گھوڑے کی پیٹھ پر سوار ہو کر نیزہ تانے آگے بڑھے۔ گھوڑے کو ایڑی لگائی تو وہ بجلی کی طرح آگے بڑھا اور مولانا کا نیزہ چمکا، بلند ہوا پھر جھکا اور آن کی آن میں میخ اکھیڑ لایا۔ مولانا بڑے نڈر اور جری تھے۔ حیدر آباد کی ہی ذکرہے کہ ہوم ڈیپارٹمنٹ کے اسسٹنٹ سیکرٹری مسٹر لی کے بیٹے نے والدین سے ناراض ہو کر کوٹھی سے ملحق کنویں میں چھلانگ لگا دی۔ مسٹر لی مکان پر نہیں تھے۔ ان کی بیگم نے شور مچایا۔ مولانا سن کر امداد کو پہنچے، رسہ منگوایا اور اس کے سہارے کنویں میں اتر رہے تھے کہ رسہ کٹ کر ٹوٹ گیا اور وہ دھڑام سے نیچے گر پڑے۔ نوکر بھاگے بھاگے دوسرا رسہ لائے اور کنویں میں لٹکایا ۔ مولانا نے اس رسہ کے ذریعے پہلے اس لڑکے کو نکالا اور پھر خود نکلے۔ زخموں کی وجہ سے کئی دن چارپائی پر پڑے رہے۔ مولانا ظفر علی خان کے لڑکپن اور طالب علمی کے واقعات رقم کرنا مقصود ہو تو سفینہ چاہئے اس بحربے کراں کے لیے لیکن ہم اس جگہ ایک ہی واقعہ درج کرنے پر اکتفا کریں گے۔ حیدر آباد دکن جو ان دنوں برطانوی اقتدار کے زیر اثر رہا بر صغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کی عظمت رفتہ کا ایک درخشاں نقش تھا۔ وہاں مولانا ظفر علی خان مذکورہ ملازمت کے علاوہ مختلف مناصب پر فائز رہے۔ ولی عہد سلطنت میر عثمان علی خان کے اتالیق مقرر ہوئے۔ ہوم ڈیپارٹمنٹ میں رجسٹرار ہوئے پھر وارالترجمہ میں ایک بڑے عہدے پر فائز ہوئے۔ حتیٰ کہ ہوم سیکرٹری کے عہدہ جلیلہ پر متمکن ہوئے۔ لیکن حضور نظام سے ایک گونہ ارادت کے باوجود ریاستی ماحول اور ان کی ذہنی افتاد طبع کے لئے ساز گار ثابت نہ ہوا۔ کسی حاسد خیرہ باطن نے انگریزوں کو اطلاع دی کہ ظفر علی خان، نظام کو انگریزوں کے خلاف اکسا رہا ہے۔ انگریز نے اپنے ریذیڈنٹ کی معرفت مولانا کو حیدر آباد سے نکلوادیا۔ کچھ عرصہ بعد جب یہ غلط فہمی رفع ہوئی تو دوبارہ حیدر آباد گئے لیکن سر مائےکل اڈوائر جو پنجاب کا گورنر بن کر آ چکا تھا۔ آپ کے زبان و قلم کی روانی سے سخت برہم تھا۔ اس نے بالآخر مولانا کو نکلوا کر ہی دم لیا اور مولانا یہ کہتے ہوئے وارد پنجاب ہوئے۔ گر کیا ناصح نے ہم کو قید اچھا یوں سہی یہ جنونِ عشق کے انداز چھٹ جائیں گے کیا؟ آخر مولانا ظفر علی خان نے انگریز کو بر صغیر پاک و ہند سے نکلوا کے دم لیا اور انگریز نے جو بویا تھا وہ کاٹ لیا۔ نظم”مولانا ظفر علی خان“ (یوم ظفر علی خان کے موقع پر اخبار مارکیٹ لاہور میں پڑھی) ظفر علی سومنات دہر کا وہ غزنوی نوجوانانِ وطن اولاد جس کی معنوی منعقد جلسہ ہے ان کا دن منانے کے لئے کارنامے ان کے دنیا کو سنانے کے لئے کشورِ پنجاب کو ہے فخر اس کے نام پر اس کی جانبازی پہ اس کی خدمت ِ اسلام پر مسکن اس کا ایشیا میں کشورِ پنجاب تھا سلطنت برطانیہ کا جس سے زہرہ آب تھا ہند کی تحریک ِ آزادی کا پہلا رہنما ختم جس پہ ہو گئی انگریز کی ہر اک جفا قصہ دارورسن ہر دل کا ارماں کر دیا قید خانہ اس نے گویا کوئے جاناں کر دیا سلطنت برطانیہ کا اس سے تھا دم ناک میں اس نے بھی اس کو ہمیشہ بند رکھا لاک میں ہند کو قید غلامی سے چھڑانے کے لئے عمر بھر خود قےد و بند کی سختیاں جھیلا کئے وائے بے دردی نہ اس کی بھول کر بھی یاد کی کرتے قائم یاد گار اس قبر نے فریاد کی مضطرب اس بے رخی پر آج زیر خاک ہے خاطر آزردہ ہے اس کی اور دل غمناک ہے ناصر آشفتہ کے آنسو ہیں ان اشعار میں نذر کرتا ہے جنہیں وہ ظفر کی سرکار میں

پروفیسر حکیم ولی الرحمن ناصر