نعتیہ و حمدیہ شاعری

اس موضوع کو ہم روایتاً یا تبرکاً نہیں بیان کررہے بلکہ حقیقتاً یہ ظفرعلی خاں کا خاص اور محبوب ومرغوب موضوع ہے ۔حمد اور نعت اور تاریخ اسلام کے روشن ماضی کے اخلاق آموز واقعات کا بیان ظفرعلی خاں کی شاعری کا مرکز ی موضوع ہے جہاں ان کا خامہ بہار آفریں عقیدت ومحبت کی پہنائیوں میں ڈوب کر گوہر آبدار تلاش کرتا اورعالم انسان کی رہنمائی کے لیے پیش کرتا ہے۔

خدا کی حمد‘ پیغبرﷺ کی مدح‘   اسلام کے   قصے
مرے مضموں ہیں جب سے شعر کہنے کا شعور آیا

توحید اور رسالتﷺ پر ایمان ایک مسلمان کے لیے دین کی اساس ہے اور یہ اساسِ دین جب اقرار باللسان کے مرحلے سے گزر کر تصدیق بالقلب کی منزل کو پالیتی ہے تو ایک مومن عشق ومحبت کے اس عالم میں پہنچ جاتا ہے جو انسانیت کی معراج ہے ۔یہ وہ مقام ہے جو اﷲاورمحبوب خدا کے خاص خاص بندوں کو نصیب ہوتا ہے ۔یہیں وہ سرمدی نغمے جنم لیتے ہیں جو حمد ونعت کی صورت میں ڈھلتے ہیں۔

اﷲتعالیٰ کی حمد وثنا اور نبی کریم حضرت محمدﷺ کی تعریف وتوصیف ‘عربی ‘فارسی ‘ترکی اردو شاعری کی ایک اہم صنف ہے جسے اسلامی اقدار میں ایک عام روایت اور رسم کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے ۔اس صنف سخن کو قصیدہ گوئی کے زمرے میں بھی شمار کیا جاتا ہے لیکن عام قصائد اور حمد ونعت میں یہ فرق ہے کہ جہاں قصائد کی بنیاد صلہ دنیوی پر ہوتی ہے ‘وہاں حمد ونعت میں مذہبی عقیدت کا بے لوث جذبہ کار فرما ہوتا ہے ۔عربی قصائد میں تو عرب شاعروں نے اپنی روایتی راست گوئی کے مسلک کے تحت حقیقت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا لیکن ایرانی شاعروں نے اپنے مذاق طبیعت کے مطابق خیال آفرینی اور مبالغہ آرائی کو حد سے سوا کردیا۔یہی صورت ‘چند مستثنیات کو چھوڑ کر ‘فارسی اور پھر اردو میں حمد ونعت کے سلسلے میں بھی پیش آئی ۔حمد ونعت کی بنیاد سراسر خلوص ومحبت اور عقیدت واحترم پر ہے ۔اس میں دنیوی منفعت یا غرض پوشیدہ نہیں ہوتی۔عقیدت بعض اوقات اندھی بھی ہوتی ہے اور ایسی باتوں سے تسکین حاصل کرنا چاہتی ہے جو عقل و فہم سے بعید ہوتی ہیں۔چنانچہ بعض شاعر نعت میں بھی مبالغے اور غلو سے کام لیتے ہیں لیکن یہ اس موضوع سے سراسر ناانصافی اور تجاوز ہے ۔بقول مولوی عبدالحق ”نعت میں وہی ذکر ہونا چاہیے جو خدا کے نبی ﷺ  کے لیے شایان ہے اور جس کے پڑھنے اور سنانے سے لوگوں پر روحانی اور اخلاقی اثر پڑے اور معلوم ہو کہ کمالِ بشریت اسے کہتے ہیں۔نہ یہ کہ تمام نعتیہ قصائد سننے کے بعد دل پر یہ اثر ہو کہ کسی شاہد رعنا‘خوش رو‘خوش اندام‘نازک بدن کی تعریف ہے۔“اس لحاظ سے دیکھا جائے تو حمد ونعت کا موضوع بڑا نازک اور ذمے داری کا حامل ہے اس کے لیے محبت وعقیدت واحترام کے علاوہ دینی امور ومسائل سے واقفیت بھی لازم ہے۔ اس واقفیت کے بغیر شاعر کا راہ راست سے بھٹک جانا ممکن ہے۔

اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر مشرقی زبانوں میں حمد ونعت کا مضمون ایک عام رسم وروایت تو بن گیا جس کی متابعت مسلم شعرا تو ایک طرف رہے‘ اسلامی تہذیب کے زیر اثر غیر مسلم شعرا بھی کرتے رہے مگر حقیقی مقام تک بہت کم شاعرپہنچ سکے ۔عربی میں حسان بن ثابت اورکعب بن زہیر اس صنف سخن کے امام تھے ۔فارسی میں سعدی اور جامی اس صنف کی بلندیوں تک پہنچ کر نامور ہوئے۔اردو میں حالی کے بعد ظفرعلی خاں کو یہ مقام نصیب ہوا۔
ظفرعلی خاں نے حمد ونعت میں متقدمین کی اسی روایت کو بڑے جذب وشوق ‘فکرواحساس کے علاوہ اپنے پرشکوہ لہجے اور دلآویز انداز میں آگے بڑھایا ہے ۔ پہلے ہم یہاں حمد رب العالمین کے چند اشعار پیش کرتے ہیں (یہ حمد پہلے ”ستارہ ٔصبح“ یکم مارچ بمطابق ۱۹۱۷ ۷ ربیع الثانی ۱۳۳۵ھ میں شائع ہوئی اور بعد میں ”بہارستان“کے مجموعے میں شامل ہے)

بنائے اپنی حکمت سے زمین و آسماں تو نے
دکھائے اپنی قدرت کے ہمیں کیا کیا نشاں تونے
تری صنعت کے سانچے میں ڈھلا ہے پیکرِ ہستی
سمویا اپنے ہاتھوں سے مزاجِ جسم وجاں تو نے
نہیں موقوف خلاقی تری اس ایک دنیا پر
کیے ہیں ایسے ایسے سینکڑوں پیدا جہاں تو نے
ترے ادراک میں ہے عقل حیراں اور سرگرداں
ہمیں چکر میں ڈالا بخش کر وہم و گماں تو نے
بہارِ عارضِ گل سے لگا کر آگ گلشن میں
طیورِ صبح خواں کو کردیا آتش بجاں تو نے
جوانی میں جسے بخشی دل آرائی و رعنائی
بڑھاپے میں اسی عارض پہ ڈالیں جھریاں تو نے
دلوں کو معرفت کے نور سے تو نے کیا روشن
دکھایا بے نشاں ہو کر ہمیں اپنا نشاں تو نے
نہ ہوتی گر خودی ہم میں تو جو تو تھا وہی ہم تھے
یہ پردہ کس لیے ڈالا ہے یا رب درمیاں تو نے
ہم اب سمجھے کہ شاہنشاہِ ملک لامکاں ہے تو
بنایا اک بشر کو سرورِ کون ومکاں تو نے
محمد مصطفی کی رحمتہ للعالمینی سے
بڑھائی یا رب اپنے لطف اور احساں کی شاں تو نے
حرم اور دیر میں بازار تیرا گرم رہتا ہے
ہر اک بستی میں کررکھی ہے قائم اک دکاں تو نے
ترے دربار سے مجھ کو یہی انعام کیا کم ہے
کیا اپنی ستائش میں مجھے رطب اللساں تو نے
مےلاتقنطوا کے نشہ میں سرشار رہتا ہوں
سیہ مستوں کو بخشی ہے حیاتِ جادواں تو نے

”خمستان ازل کا ساقی“میں بھی وحدت کا گیت گاتے ہوئے ‘رب العالمین کے لطف ِ عام کی گواہی دی گئی ہے:

پہنچتا ہے ہر اک میکش کے آگے دورِ جام اس کا
کسی کو تشنہ لب رکھتا نہیں ہے لطف عام اس کا
گواہی دے رہی ہے اس کی یکتائی پہ ذات اس کی
دوئی کے نقش سب جھوٹے ‘ہے سچا ایک نام اس کا
ہر اک ذرہ فضا کا داستاں اس کی سناتا ہے
ہر اک جھونکا ہوا کا آکے دیتا ہے پیام اس کا
میں اس کو کعبہ وبت خانہ میں کیوں ڈھونڈنے نکلوں
مرے ٹوٹے ہوئے دل ہی کے اندر ہے مقام اس کا
سراپا معصیت میں ہوں سراپا مغفرت وہ ہے
خطا کوشی روش میری خطا پوشی ہے کام اس کا
نہ جا اس کے تحمل پر کہ ہے بے ڈھب گرفت اس کی
ڈر اس کی دیر گیری سے کہ ہے سخت انتقام اس کا

حمد کے ساتھ ہی جڑا ہوا حبیبِ کبریا محمد مصطفیﷺ کی نعت کا سلسلہ ہے جو سرورکون ومکاں ہیں۔اس سلسلے میں ہم سب سے پہلے مولانا ظفرعلی خاں کا ایک نعتیہ مخمس ”نذر بحضور خواجہ دوجہاں سرورکون ومکاں محمدمصطفیﷺ احمد مجتبیٰﷺ“پیش کرتے ہیں جو ”ستارۂ صبح“کی اشاعت ۶۱جنوری۷۱۹۱ءمیں شائع ہوا۔ٹیپ کا مصرع ”سلطنت اک جہاں کی ہے تیری نگاہِ التفات“بعد میں ”بہارستان“میں ےوں بدل دیا گیا ”ہم سے پھرا ہوا ہے کےوں گوشہءچشم التفًات“جس سے عصری احوال کے حوالے سے ایک گونہ شکایت کی صورت پیداہوگئی ہے

ہم سے ِپھرا ہوا ہے کیوں گوشہ چشم التفات
شرق ہے تجھ سے مستفےض غرب ہے تجھ سے فیضیاب
دونوں جہاں کی رحمتیں ہو گئیں تیری ہم رکاب
جو ترے در کی خاک تھے ہو گئے آسماں جناب
لطف ترا ہے بیشمار فیض ترا ہے بے حساب
ہم سے پھرا ہوا ہے کیوں گوشہ ءچشم التفات
گردنِ خلق ایک ساتھ جھک گئی رب کے سامنے
چون وچرا نہ چل سکا اصل سبب کے سامنے
گرد ہوتی ہے کےمیا خاکِ عرب کے سامنے
تونے یہ گنج شاےگاں رکھ دیا سب کے سامنے
ہم سے پھرا ہوا ہے کیوں گوشہ چشم التفات
چین سے تابہ اندلس بادہ فروش تو ہی تھا
بادہ کشوں کے واسطے چشمہ نوش تو ہی تھا
شاہد علم وفضل کا حلقہء گوش تو ہی تھا
سارے جہاں کے لیے دیدہ ہوش تو ہی تھا
ہم سے پھرا ہوا ہے کیوں گوشہ چشم التفات
سارے جہاں کی حکمتیں تیرے کلام پر نثار
سارے جہاں کی دولتیں تیرے نظام پر نثار
ہم تری ذات پر فدا ہم ترے نام پر نثار
تیری گلی میں ہوں مقیم تیرے مقام پر نثار
ہم سے پھرا ہوا ہے کیوں گوشہ چشم التفات

اسی زمین میں آگے چل کر قصیدے کی ہیت میں ”اسلامیان ہند کی فریاد بارگاہ سرور کائنات ﷺ میں “پیش کی گئی ہے۔مطلع کے پانچ شعر اور د عائیہ کے تین شعر یہاں درج کیے جاتے ہیں:

اے کے تیری نمود ہے غازہ روئے کائنات
جلوہ فشاں ہیں ہر طرف تیری ہی سب تجلیات
قصد یہ کر رہا ہوں میں نعت تری رقم کروں
کوز ہ میں بھررہا ہوں میں مایہ دجلہ وفرات
نور ترا نہ چیرتا گر افق شہود کو
ختم نہ ہوتی آج تک تیرگی شب حیات
خلق عظیم ہے ترا پرتو حسن لم یزل
دونوں جہاں کی رحمتیں تیرے جمال کی زکات

مولاناظفرعلی خاں کے نعتیہ کلام میں ان کی مشہور نعت”صلوعلیہ وآلہ“بڑی دل آویز اورمعنوی رفعت میں بےمثال ہے جس کا دوسرا عنوان”شمع حرا“ہے۔اس زندہ جاوید نعت کے پانچ اشعار اگست ۰۱۹۱ءکے پنجاب رویوں میں شائع ہوئے تھے اور تین اشعار (دوسرے‘ساتویں‘ آٹھویں)کااضافہ منٹگمری کے زمانہ اسیری میں ہواتھا۔اس نعت کی تخلیق نے ظفرعلی خاں کو نعتیہ شاعری میں بلند ترین مرتبے پر فائز کردیا ۔اس کے اشعار اس وقت بھی وجد آفریں تھے جب یہ نعت پہلی بار پنجاب رویوں اور نظام المشائح میں شائع ہوئی تھی اور آج بھی ہیں:

وہ شمع اجالا جس نے کیا چالیس برس تک غاروں میں
اک روز جھلکنے والی تھی سب دنیا کے درباروں میں
رحمت کی گھٹائیں پھیل گئیں افلاک کے گنبدگنبد پر
وحدت کی تجلی کوند گئی آفاق کے سینا زاروں میں
گر ارض وسما کی محفل میں لولاک لما کا شور نہ ہو
یہ رنگ نہ ہو گلزاروں میں یہ نور نہ ہو سے اروں میں
جو فلسفیوں سے کھل نہ سکا اور نکتہ وروں سے حل نہ ہوا
وہ راز اک کملی والے نے بتلادیا چند اشاروں میں
وہ جنس نہیں ایمان جسے لے آئیں دکانِ فلسفہ سے
ڈھونڈے سے ملے گی عاقل کو یہ قرآں کے سےپاروں میں
ہیں کرنیں ایک ہی مشعل کی بوبکروعمر،عثمان وعلی
ہم مرتبہ ہیں یارانِ نبی ﷺ کچھ فرق نہیں ان چاروں میں
جس میکدے کی اک بوند سے بھی لب کجکلہوں کے تر نہ ہوئے
ہیں آج بھی ہم بے مایہ گدا اس میکدے کے سرشاروں میں
ہم حق کے علم برداروں کا ہے اب بھی نرالا ٹھاٹھ وہی
بادل کی گرج تکبیروں میں بجلی کی تڑپ تلواروں میں

ظفرعلی خاں جذبہءعشق رسولﷺ سے سرشار تھے۔یہ جذبہ ان کے باقی سب جذبوں پر حاوی اور ابتلاوآزمائش کے موقعوں پر ان کے لیے تسکین دل کا سب سے بڑا سہاراتھا۔محبت کی یہ وہ لطیف اور پاکیزہ فضا ہے جو ہردنیوی آلائش سے پاک اورمنزہ ہے۔مولاناظفرعلی خاں اس فضا کی واردات وکیفیات کی عکاسی کرتے ہوئے حقیقت کے دامن کو ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔انتہائی عقیدت اور جذبہءمحبت کی سرشاری کے باوجود وہ حضرت خیر البشرﷺ کی ذات والاصفات سے متعلق کوئی ایسی بات منسوب نہیں کرتے جو قرآن وسنت کے خلاف یا عقل وفہم کے منافی ہو۔نعت پیغمبر میں انہوں نے عصری مسائل کو بھی ملحوظ خاطر رکھا ہے اور ان کی نعتوں میں گریز کا موضوع علی العموم وہ امور ومسائل ہوتے ہیں جو امت خیر الوریٰﷺ کو عصر حاضرمیں درپیش ہیں۔عقیدت مندی اور حقیقت پسندی کی اس آمیزش نے مولاناظفرعلی خاں کی نعتیہ شاعری کو موثر بھی بنایا ہے اور پرسوز بھی۔

ظفرعلی خاں کی تخلیق صلاحیتیں ان کی نعتیہ شاعری میں اپنی ساری جمالی اور جلالی خصوصیات کے ساتھ بروے کار آئی ہیں۔ان کی شاعری کایہ حصہ ہنگاموں اور اجتماعوں سے الگ ان کے خلوت خانہءدل کا ترجمان ہے ۔یہاں جذبے اورتخیل کے سہارے وہ اچھوتی اور لطیف فضاﺅں میں سرگرم سیر ہوتے ہیں۔اظہار وبیان میں اردو ‘فارسی کی خوش آہنگ ترکیبیں ‘جذبے اور احساس کے مطابق سبک ‘شیریں اور پرشکوہ الفاظ اپنے اپنے موقعوں کی مناسبت سے آتے ہیں۔ان کی نعتیہ شاعری فصاحت وبلاغت کے لحاظ سے معنی بلند اور الفاظ خوش کے حسین امتزاج سے صورت پذیرہوتی ہے

جب نبی کی نعت میں مصروف ہوتا ہے قلم
کیسے کیسے خوش نما موتی پروتا ہے قلم

ذیل میں پیش کی جانے والی چند نعتوں میں الفاظ ومعنی کے حسنِ امتزاج کی کچھ جھلکیاں ملاحظہ کےجئے۔پہلی نعت ”زمیندار“بابت۶۱ مارچ۱۱۹۱ءمیں شائع ہوئی تھی

محمد مصطفی گنجِ سعادت کے امیں تم ہو
شفیع المذنبیں ہو ‘ ر حمتہ للعالمیں تم ہو
ہوئی تکمیل دیں تم سے کہ ختم المرسلیں تم ہو
رسالت ہے اگر انگشتری اس کے نگیں تم ہو
نہ ہوتے تم تو عرش وفرش کا نقشہ نہ جم سکتا
یہ دنیا اعتباری تھی حقیقت آفریں تم ہو
مبرا کر دیا تم نے خدا کو ذمے داری سے
کہ ختم حجتِ حق کی نشانی بالیقیں تم ہو
نمکداں خوانِ ہستی کا تمہارا حسن ِ دلکش ہے
خدا جس پر ہوا سوجاں سے شیدا وہ حسیں تم ہو
تمہاری یاد ہو جس دل میں ایسے دل کا کیا کہنا
مکاں ہو گا عجب ہی شان کاجس کے مکیں تم ہو
ہوئی کافور ظلمت کفر کی جس کی شعاعوں سے
زمانہ پر یہ روشن ہے کہ وہ مہر مبیں تم ہو
ہوا اسلام کا شرمندہء احساں جہاں سارا
ہر اک اقلیم پر برسا گئے در ِ ثمیں تم ہو
لقب خیر الامم جس کو دیا تارخ عالم نے
اس امت کے نگہباں اس زمانہ میں تمہیں تم ہو
مسلمانو: خدا کا فضل اس سے بڑھ کے کیا ہوگا
رسول اﷲ کا خرمن ہے جس کے خوشہ چیں تم ہو
تمہارا عروة الوثقیٰ ہے واعتصموالحبل اﷲ
پھر اس رسی کو یارو تھام لیتے کیوں نہیں تم ہو
اخوت کا سبق تم کو پڑھایا ہے پے مبر نے
مگر دل میں لیے پھرتے نفاق وبغض وکیں تم ہو

ایک دوسری نعت کے چند اور اشعار ملاحظہ فرمائیے:

دل جس سے زندہ ہے وہ تمنا تمہی تو ہو
ہم جس میں بس رہے ہیں وہ دنیا تمہی تو ہو
پھوٹا جو سینہء شب ِ تار ِ الست سے
اس نورِ اولیں کا اجالا تمہی تو ہو
سب کچھ تمہارے واسطے پیدا کیا گیا
سب غایتوں کی غایت ِ اولی ٰ تمہی تو ہو
جلتے ہیں جبرئیل کے پر جس مقام پر
اس کی حقیقتوں کے شناسا تمہی تو ہو
جو ماسوا کی حد سے بھی آگے گزر گیا
اے رہ نوردِ جاوہء اسریٰ تمہی تو ہو
پیتے ہی جس کے زندگیء جادواں ملی
اس جاں فزا زلال کے مینا تمہی تو ہو
گرتے ہوؤں کو تھام لیا جس کے ہاتھ نے
۔۔۔۔۔۔۔۔