صحافتی خدمات

مولانا ظفر علی خان کو” بابائے صحافت “اس لئے کہا جاتا ہے کہ جیسی آن بان اور شان صحافت کو انہوں نے دی اور کسی نے نہیں دی۔ جس طرح کی پرورش اس پیشے کی انہوں نے کی‘ کسی اور نے نہیں کی۔ ان سے پہلے صحافیوں کو منشی کہا اور سمجھا جاتا تھا۔ وہ پہلے علی گڑھ کے گریجوایٹ تھے‘ جنہوں نے جدید و قدیم علوم سے بہرہ مند ہونے اور ترجمہ و تحریر میں کمال فن حال کرنے کے بعد اُردو صحافت میں قدم رکھا۔ انہوں نے اپنی جرأت و بے باکی کے ذریعے برصغیر کی دبی ہوئی اور بے وسیلہ مسلم قوم کو حوصلہ ہی نہیں دیا بلکہ ان کے لئے منزل کی نشاندہی بھی کی‘ انہیں اپنے مسائل سے نمٹنے کا شعور بھی بخشا۔
ظفر علی خان کو بابائے صحافت کہنے کی وجہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے فنی اور معنوی لحاظ سے اُردو صحافت کو ترقی کا وہ سفر برسوں میں طے کرا دیا جو ان کے بغیر صدیوں میں طے ہوتا ۔ ظفر علی خان کے زمانے تک برصغیر کے مسلمانوں کی حالت 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد دگر گوں ہو چکی تھی۔ انگریز اور ہندو کا اتحاد انہیں سیاست‘ معیشت اور معاشرت میں ہر طرف سے پیچھے دھکیلنے میں مصروف تھا۔ یہ سمجھا جا رہا تھا کہ انگریز کی سلطنت پر سورج غروب نہیں ہوتا‘ اس لئے اسے شکست دینا ممکن نہیں۔ عام طور پر یہ سمجھا جا رہا تھا کہ انگریز کی نظر التفات اور انگریز کی سرپرستی کے بغیر کسی کا جینا اور کامیاب ہونا ممکن نہیں۔ انگریز کا رعب و دبدبہ ہر کسی پر قائم تھا۔ انگریز پر تنقید اور اس کی مخالفت کا تصور محال تھا۔ ظفرعلی خان برصغیر کے پہلے صحافی تھے جنہوں نے اپنی بیباک تحریروں‘ تقریروں اور شاعری سے عام مسلمانوں کے اذہان سے انگریز کا یہ خوف دور کیا۔ ظفر علی خان نے اس زور دار اور زناٹے دار انداز میں مسلم مخالف طاقتوں کو للکارا کہ ان کے پاؤں اکھڑ گئے۔ ان کی بے پناہ صلاحتیں‘ تاریخ اور دین کا گہرا مطالعہ اور رسول پاک ﷺ سے عشق نے ان کے ذوق و شوق کو مہمیز دی ۔ زبان و بیان پر عبور‘ بے پناہ تحقیقی صلاحیتوں‘ فن صحافت کی مبادیات‘ صحافتی قوانین اور روایات سے شناسائی اور فطری جرات و بے باکی نے انہیں ہر کہیں نمایاں اور ممتاز کیا۔ سارے برصغیر میں ان کی صحافت و خطابت کی دھوم مچ گئی۔ اپنی انگریز دشمنی‘ عشق رسولﷺ اور پہاڑ جیسی جرات و ہمت کی بناء پر ان کا نام ایک بہادر انسان کے طور پر زبان زدعام ہو گیا۔ یہی وجہ تھی کہ جب 1930ء میں محمد علی جناح نے مولانا ظفر علی خان کی صدارت میں بادشاہی مسجد کے ایک اجتماع سے خطاب کیا تو انہوں نے کہا کہ
”اگر مجھے پنجاب سے ظفر علی خان جیسے دس بارہ بہادر بھی مل جائیں تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ مسلمانوں کو دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔“
ظفر علی خان نے اپنی خداداد صلاحیتوں کے ساتھ اپنے علم اور فن میں کمال حاصل کرنے کے لئے مسلسل اور سخت محنت کی‘ انتہائی اخلاص کے ساتھ قوم و ملت کو بیدار کرنے اور قومی حقوق کی جنگ لڑنے کے لئے بے مثل جرات‘ بیباکی اور ایثار کا ثبوت دیا۔ علی گڑھ سے بی اے کرنے کے بعد حیدر آباد دکن کی ملازمت کے دوران اپنی اعلیٰ انتظامی اور صحافتی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ والد مولانا سراج الدین کی وفات کے بعد ان کے روزنامہ ”زمیندار“ کی ادارت سنبھالی اور دیکھتے ہی دیکھتے اسے ایک معمولی جریدے سے اٹھا کر اوج ثریا پر پہنا دیا۔ روزنامہ ”زمیندار“ ان کی صلاحیتوں کی وجہ سے برصغیر کا سب سے مقبول ترین اخبار بن گیا۔
مولانا ظفر علی خان نے آزادی ہند اور اسلامیان ہند کے حقوق کے تحفظ کی خاطر اپنی صحافت اور خطابت سے کام لیا۔ وہ عوامی صفوں میں اپنے حقوق کے لئے جوش و خروش پیدا کرتے رہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ انہوں نے اردو صحافت کو ایک نئی سج دھج دی‘ ایک وقار اور اعلیٰ معیار عطا کیا۔ ان کا روزنامہ ”زمیندار“ پہلا اردو اخبار تھا جس نے دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی اپنے رپورٹرز مقرر کئے اور عالم اسلام کی خبریں باقاعدگی کے ساتھ شائع کرنی شروع کیں۔ ان کا اخبار زبان و بیان کی اغلاط سے پاک اور عمدہ ”لے آوٹ“ میں ہوتا تھا۔ انہوں نے اس کی کتابت کے لئے برصغیر کے اعلیٰ ترین فنکار خوش نویس اپنے دفتر میں جمع کئے۔ برصغیر کے کونے کونے سے خوبصورت تحریریں لکھنے والے افراد کو کالم نویسی‘ اداریہ نویشی اور تراجم کے لئے اپنے اخبار میں ملازم رکھا۔
مولانا چراغ حسن حسرت‘ مولانا عبدالمجید سالک‘ مولانا غلام رسول مہر‘ مولانا مرتضیٰ احمد خان میکش اور بہت سے دوسرے نامی گرامی صحافی اور دانشور ان کے ہاں جمع تھے‘ جن کی تحریروں سے ”زمیندار“ کا معیار بے حد بلند ہو گیا۔ ”زمیندار“ پہلا اردو اخبار تھا جس نے باقاعدہ ایجنسی سے نیوز سروس لینا شروع کی۔ سب سے پہلے ادارتی صفحہ شائع کرنا شروع کیا جس پر باقاعدہ کالم شائع ہونے لگے۔ اس اخبار نے پہلی بار خبروں کے صفحات میں خبروں پر ایک سے زائد کالمی سرخیاں لگانی شروع کیں اور ڈئزائن کی خوبی اور موضوعات کے تنوع کی وجہ سے خبروں کے صفحات کو زیادہ دلکش بنا دیا۔
”زمیندار“ برغیر کا پہلا اردو اخبار تھا جس کی اشاعت معمول کے عام اخباروں کی ایک ڈیڑھ ہزار کی اشاعت سے بڑھ کر تیس پینتیس ہزار تک پہنچی۔ مسلمانوں میں ظفر علی خان کا اخبار اس قدر مقبول ہوا کہ سرحد کے ان پڑھ پٹھان اسے دو پیسے میں خرید کر دوسروں سے پڑھوانے کے لئے دو آنے معاوضہ ادا کرتے تھے۔
روزنامہ ”زمیندار“ کی ضمانتیں کئی بار ضبط ہوئیں اور اسے بندش سے بچانے کے لئے مسلمانوں نے جوش و خروش سے تیس تیس ہزار روپے تک کی نئی ضمانت چندہ کر کے سرکار کے خزانے میں جمع کرا دی۔ اس دور میں ظفر علی خان اور ان کے اخبار سے جس محبت اورعقیدت کا اظہار اسلامیان ہند نے کیا وہ محبت اس کے بعد کسی دوسرے کے حصے میں نہیں آئی۔ مولانا کی صحافت کو جنگجو صحافت کہا جاتا ہے۔ بلاشبہ وہ جبر اور ظلم کے خلاف جنگ لڑنے والے ایک بے حد بہادر اور غیرت مند جنگجو تھے۔ انہوں نے اپنے وقتوں میں صحافتی قوانین کے جبر اور صحافت کے خلاف ‘ حاکموں کی چیرہ دستیوں کے خلاف برصغیر میں نہایت بے باکی اور جرات کے ساتھ جنگ لڑی۔ نہ صرف برصغیر یں بلکہ انگلینڈ میں بھی جا کر برطانوی حکومت پر دیار غیر میں جابرانہ صحافتی قوانین کے خلاف آواز اٹھائی۔ ظفر علی خان کو متعدد بار ان کی جرات و بیباکی کی پاداش میں جیل بھیجا گیا اور ان کی آواز کو دبانے کے لئے طمع و لالچ اور خوف کے تمام حربے استعمال کئے گئے۔ انہوں نے کل پانچ سال سے بھی زیادہ عرصہ جیلوں میں گذارا۔ اپنے اور اپنے خاندان کے مالی و سائل قوم کی آواز کو موثر بنانے میں صرف کر دئیے‘ مالی دشواریاں برداشت کیں‘ جیل کی اذیتیں کاٹیں‘ لیکن ان کے پایہ استقلال میں کسی صورت بھی لغزش نہیں آئی۔ مولانا ظفر علی خان کے اخبار نے تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اسلامیان ہند کے لئے ایک آزاد ملک کی ضرورت پر زور دیا۔
ظفر علی خان ایک نابغہ روزگار اور فولادی عزم کے مالک ایسے قومی و ملی رہنما تھے‘ جنہیں قوم آج بھی بجا طور پر اپنا بہت بڑا محسن اور خیرخواہ مانتی اور ان کی خدمات کا اعتراف کرتی ہے۔ ظفر علی خان نے تحریک خلافت‘ جنگ عظیم دوم‘ مسجد شہید گنج اور ایسے ہی دوسرے مواقع پر اسلامیان ہند کی جس جرات اور قابلیت کے ساتھ رہنمائی کی اور ان کے جذبات اور امنگوں کو جیسے موثر پیرا یہ میں بیان کیا وہ انہی کا حصہ ہے۔ آج مولانا ظفر علی خان کا نام قومی رہنماؤں کی کہکشاں میں چاند‘ سورج کی طرح جگمگا رہا ہے۔ آج بھی ہماری صحافت اعلیٰ قابلیت اور بے مثل جرات اور حوصلے کے مالک کسی ظفر علی خان کی راہ دیکھ رہی ہے‘ جو کہ ہماری قوم پر اللہ کا انعام اور احسان تھے۔
( اقتباسِ تحریر ڈاکٹر شفیق جالندھری)