ہم رسول پاک صلى الله عليه وسلم کو رہبر کامل اور پیغمبروں رسولوں کی زندگی کو ناقابل تقلید ماننے والے لوگ ہیں۔ تمام پیغمبروں اور رسولوں کی زندگی کا مشترکہ اور نمایاں ترین پہلو یہ ہے کہ ان سب نے اپنی پوری زندگی میں بے حد تکالیف اور مشکلات برداشت کیں، مصیبتیں اور دکھ برداشت کئے اور کٹھن سے کٹھن حالات میں بھی صبر اور استقامت کا ثبوت دیا۔ پیغمبروں اور رسولوں کی زندگی کا یہی روشن پہلو ہے جس نے انہیں عظمت کے پہاڑ اور روشنی کے مینار بنا دیا۔ یہی سبق ہمیں دنیا کے ممتاز ترین جرائد میں چھپنے والی بڑے انسانوں کی داستانوں سے ملتا ہے اور اسی بات پر دنیا بھر کے دانشور متفق ہیں کہ بڑا انسان وہ نہیں جس نے بڑا عہدہ حاصل کر لیا یا اپنے لئے دولت کے انبار لگا لئے بلکہ بڑا انسان وہ ہے جس نے اپنے لئے اعلیٰ نصب العین کا تعین کیا اورپھر اس کے لئے خلوص دل سے جدوجہد کی۔ اپنے نصب العین کے حصول کی راہ میں جس نے جتنی مصیبتیں برداشت کر لیں جتنے زیادہ دکھ اور تکالیف صبر سے جھیل لیں وہ اتنا ہی کامیاب اور اتنا ہی بڑا انسان بن گیا۔ سچے عاشق رسول صلى الله عليه وسلم اور ہماری قومی تحریک آزادی کے بے باک اور نڈر ہیرو بابائے صحافت کی زندگی انہی عظیم المرتبت پےغمبروں کے کردار اور مثال کی روشنی سے منور تھی۔ انہوں نے ایک بے حد ماہر صحافی، بے مثل ادیب و خطیب اور بدیہہ گو شاعر، ممتاز مترجم اور اعلیٰ منتظم کے علاوہ اپنی صحافت کو حق گوئی و بیبا کی کے زیور سے آراستہ کیا۔

مولانا نے مسلمانان ہند کے حقوق کی جنگ لڑی انگریز حکومت کے جبر سے سہمے ہوئے عوام کو حاکموں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کا حوصلہ بخشا۔ وہ مسلم مخالف طاقتوں سے اکیلے لڑنے بھڑنے پر آمادہ رہتے تھے۔ کسی طرح کا جبر اور اقتدار کا قہر انہیں جھکانے یا نیچا دکھانے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ مولانا ظفر علی خان اتحاد عالم اسلام کے خواہاں تھے۔ اقتدار کے کاسہ لیسوں اور خوشامد یوں کیلئے ان کے دل میں نفرت تھی۔ وہ سمجھتے تھے کہ انسان کا ایمان سچا ہو، وہ اندر باہر سے ایک جیسا ہو تو پھر وہ کسی بھی ڈر یا خوف کی وجہ سے حق بات پر برملا کہنے اور لکھنے سے باز نہیں رہ سکتا۔ مولانا ظفر علی خان نے اپنے اخبار ”زمیندار“ میں پورے برصغیر سے چن چن کر چوٹی کے خوشنویس ، لکھنے والے اور مترجم جمع کئے تھے۔ پہلی بار انہوں نے نہ صرف نیوز ایجنسیوں کی سروس لی بلکہ عالم اسلام کے اہم شہروں میں بھی اپنے اخبار کے نمائندے مقرر کئے۔ مولانا سے پہلے اخبارات کے مالک یا مدیر، منشی کہلاتے تھے۔ ان میں سے اکثر زمانے کے جدید تقاضوں، سیاسی و سماجی حالات سے بے خبر اور نیم خواندہ تھے۔ مولانا ظفر علی خان علی گڑھ یونیورسٹی کے پہلے گریجوایٹ تھے جو میدان صحافت میں اترے۔ جنہوں نے اسلامی تاریخ اور دین کے مطالعہ اور زبان و بیان پر قابل رشک عبور حاصل کرنے کے علاوہ جدید معیشت و معاشرت اور سےاسیات کے تمام رحجانات کا مطالعہ کیا۔ دنیا کے مختلف د ساتیر کا مطالعہ کیا، قانون کو سمجھا اور وقت کے بدلتے ہوئے تیور پر نظر رکھی۔ وہ دشمن کا انہی ہتھیاروں سے مقابلہ کرنے کے قائل تھے جن ہتھےاروں سے کہ خود دشمن لیس تھا۔ مولانا ظفر علی خان کے روزنامہ زمیندار نے بر صغیر کی صحافت کو نئے معیاروں سے روشناس کرایا۔ اس زمانے میں یہ پہلی بار ہوا کہ کسی اخبار کو (زمیندار کی صورت میں) تیس پینتیس ہزار کی اشاعت نصیب ہوئی۔ حضرت مولانا ظفر علی خان کے اخبار کی ضمانتیں کتنی ہی بار ضبط ہوئیں اور کتنی ہی بار ان پر جان نچھاور کرنے والے اسلامیان ہند نے دیکھتے ہی دیکھتے چندہ جمع کر کے ضمانتوں کی کثیر رقم جمع کرائی اور ان کے اخبار کی اشاعت کا سلسلہ بند نہ ہوا۔ مولانا نے اپنی عمر میں مختلف اوقات میں چودہ قیمتی سال قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کیں لیکن وہ حق کہنے اور آزادی کے مطالبہ کرنے سے باز نہیں آئے ۔ انگریز حکمرانوں کی کسی بھی طرح کی سختی اور تعزیر انہیں سچ کہنے سے روک نہ سکی اور ان کے پائے استقلال میں لغزش نہ آئی۔ وہ تقریر بھی کرتے تو الفاظ کے بے اختیار بہاﺅ سے ایک طوفان اٹھا دیتے۔ ان کا جوش و جذبہ اٹل اور مصم ارادے حاکموں کے حوصلے پست کر دینے والے تھے۔ انہوں نے وقت کی سب سے بڑی سلطنت کے گورنروں سے ٹکر لی اوراسے معمول کی بات سمجھا۔ ان کے اندر کے پختہ ایمان اور عشق نے ان میں جو سیمابی کیفیت پیدا کی اس نے اسلامیان ہند کو جھنجھوڑنے کا کام کیا۔ بعض لوگوں کے نزدیک مولانا ظفر علی خان کی صحافت و خطابت محض گھن گرج اور کڑک کا نام تھی، وہ جنگجو صحافت کے داعی تھے۔ ان کی صحافت میں ہوش سے زیادہ جوش تھا، منطق و استدلال سے زیادہ جذبہ اور تڑپ تھی، آج اگر ہم مولانا ظفر علی خان کی تحریروں کا مطالعہ کریں تو یہ بات واضح ہو کر ہمارے سامنے آتی ہے کہ ان کے بیان میں الفاظ کا شکوہ اور اسلوب میں بے ساختہ پن اور تحریک بخش استدلال تھا۔

انہوں نے اپنی طباع طبیعت ، تخلیقی ذہن، بے پناہ صلاحیتوں اور شب و روز کی محنت سے اردو صحافت میں بہت سی جدتیں اور ندرتیں پےدا کیں۔ پیشہ صحافت کو وقار اور شکوہ بخشا، صحافت میں ان کی آمد کے بعد دوسرے پڑھے لکھے اور ذہین و طباع مسلمان نوجوانوں کو بھی خارزار صحافت میں قدم رکھنے کا حوصلہ ملا۔ مولانا ظفر علی خان کے بعد کم ذہن اور زمانے کے جدید تقاضوں سے باخبر انسانوں کا محض الفاظی اور آرائش زبان کے بل بوتے پر صحافت میں کامیاب ہونا ممکن نہ رہا۔ صرف ذہین ترین، بے حد محنتی، چاق چوبند، عالی ظرف اور بلند حوصلہ ، باضمےر اور قوم و ملک کے لئے صدق دل سے کام کرنے والے لوگوں ہی کو اردو قارئین نے سر آنکھوں پر بٹھایا۔ مولانا ظفر علی خان نے اردو صحافت کو جس اعلیٰ معیار اور اقدار سے روشناس کرایا اس کے بعد صحافت کے میدان میں منشی گیری او ربے صلاحیت قسمت آزماﺅں کے لئے کوئی گنجائش باقی نہ رہی۔ بلا شبہ مولانا ظفر علی خان کی سیاست و صحافت آج ہمارے سےاستدانوں اور صحافیوں کےلئے مشعل راہ ہے۔ ان کی صحافت و سیاست ہماری قومی تاریخ کے ایک روشن باب کی صورت میں ہمیشہ ہمیں بہت کچھ بتاتی اور صحیح راہیں سُجھاتی رہے گی۔ اس کا سبق یہ ہے کہ

1 – قوم کی حقیقی رہنمائی اور قیادت و سیاست نااہلوں اور طالع آزماﺅں یا کم حوصلہ انسانوں کا نام نہیں۔

2 – قومی رہنمائی کیلئے انسان کے دل کی گہرائیوں میں تعلیمات قرآنی، خدائے واحد کی حکمرانی اور رسول کریم صلى الله عليه وسلم کے اتباع و محبت سے پختہ وابستگی کا ہونا بے حد ضروری ہے۔

3 – عالی حوصلگی کے علاوہ سیاست و صحافت کے ذریعے قوم کی رہنمائی وہی کر سکتے ہیں جنہیں خدائے لم یزل نے تخلیقی صلاحیتیں اور علم و عرفان کی دولت سے مالا مال کیا ہے۔ جس نے اپنے ماضی کے علاوہ جدید حالات کے تقاضوں کو بھی پہچانا ہے اور خوب سمجھا ہے۔

4 – سچا صحافی اور سیاستدان وہی ہو سکتا ہے جو اپنا تن من دھن سب کچھ قوم و ملت پر نچھاور کرنے کا پختہ عزم کر چکا ہو۔

5 – سیاست و صحافت کے میدان میں روشن ضمیر و روشن ذہن انسان ہی راہ پا سکتے ہیں۔

6 – سیاست و صحافت میں کامیابی زبان و بیان پر عبور اور فصاحت و بلاغت کی خوبیاں حاصل کئے بغیر ممکن نہیں۔

7 – اپنے مشن اور نصب العین کے لئے آگے بڑھتے ہوئے خوف اور ڈرکو اپنے قریب پھٹکنے دینا کامیابی سے دستبردار ہونے کے مترادف ہے۔

8 – صحافت و سےاست کی مبادیات، فنی تقاضوں اور اخلاقیات سے کنارہ کشی ا س میدان میں اپنی خود کشی کے مترادف ہے۔

9 – سیاست و صحافت میں دوغلے پن یا منافقت سے کام لے کر محض اپنے خوشامدیوں کی باتیں سن کر یہ سمجھنا کہ ہم عوام الناس کی آنکھوں میں دھول جھونک سکتے ہیں، محض اپنے آپ کو دھوکا دینا ہے۔

10 – جس نے صعوبت اور مشکلات کی زندگی بسر نہیں کی اور اپنی وقتی پریشانی اور تکلیف کا رونارورو کر دنیا کو متاثر کرنا چاہا اسے کم ظرف اور دنیا دار اور ظاہر دار ہی کا نام دیا جا سکتا ہے۔

11 – سیاست اور صحافت میں صرف اسے آنا چاہیے جسے یقین ہو کہ وہ عوامی مسائل اور تکالیف کا حقیقی شعور رکھتا ہے اور ان کے سد باب کیلئے صحیح حل پیش کرنے کی پوزیشن میں ہے۔

12 – سیاست و صحافت میں کامیابی، جدت طرازی اور پرانے مسائل کیلئے نئے حل دئیے اور طویل المدت منصوبوں پر عمل کئے بغیر ممکن نہیں۔

13 – ایسی سیاست و صحافت جو حقیقی معنوں میں عوامی حقوق انہیں دلانے اور استحصالی قوتوں کے مفادات کو زک پہنچانے والی ہو اس کے خلاف ہر طرف سے مخالفت کے طوفان کا اٹھ کھڑا ہونا ایک قدرتی سی بات ہے۔

14 – عوام کی صحیح تربیت اور ذہن کشائی جس فکری بحران کا ہم شکار ہیں وہ آج پھر کسی ظفر علی خان کے میدان صحافت میں آمد کی شدید ضرورت کی نشاندہی کرتا ہے۔