مولانا ظفر علی خان کی طنز نگاری کے بارے میں ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں روزنامہ ”زمیندار“ کا ایک خوشگوار پہلو مولانا ظفر علی خان کی اس طنزیہ شاعری کا آغاز تھا جس نے اردو شاعری میں نہ صرف امتیازی حیثیت حاصل کی بلکہ جس نے ملک کے سیاسی واقعات و تحریکات پر بھی اپنے اثرات مرتب کئے“ (اردو ادب میں طنز و مزاح محمد اشرف خان عطا اپنی کتاب ”مولانا ظفر علی خان“ میں رقم طراز ہیں ”اپنے مخالفین میں ذم کا پہلو تلاش کرنے میں ظفر علی خاں کو ایک خاص ملکہ حاصل تھا۔ اور جب وہ اپنے مخالف کی کمزوریوں سے پورا واقف ہو جاتا تھا تو انہیں الفاظ کا ایسا جامہ پہناتا تھا کہ ایک ایک لفظ نشتر بن کر فریق مخالف کے دل میں پیوست ہو جاتا تھا۔ بعض اوقات الفاظ کے الٹ پھیر سے وہ ایک ایسا شعر کہہ دیتا جس میں ایک زبردست طنز پوشےدہ ہوتی تھی مثلاً قلابات ہیں زمانے کے مہر و سالک کے انقلاب کو دیکھ مولانا ظفر علی خان نے ”زمیندار“ میں ”فکاہات“ کے نام سے طنزیہ و مزاحیہ کالم کا آغاز کیا تھا۔ آپ کا قلمی نام ”نقاش“ تھا۔ چونکہ زبان و بیان پر پوری قدرت رکھتے تھے اور بدیہہ گوئی میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا اس لئے وہ وار پر وار کرتے چلے جاتے تھے۔ ان کی سیاست اور شخصیت دونوں ہنگامہ خیز تھے۔ اس لئے انہوں نے نہ تو اپنے ہم عصروں کے دھیمے انداز کو اپنایا جن میں اکبر الہ آبادی، شبلی نعمانی اور علامہ اقبال شامل تھے اور نہ ہی حقائق کی ”پردہ پوشی“ کی ۔ہر بات کھل کر کہی اور بقول ڈاکٹر وزیر آغا کے

”شاید اسی لئے ان کی طنز بالعموم بلا واسطہ ہے۔ طنز کے نقطہ نظر سے یہ کوئی قابل تعریف بات نہیں اور اس سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مد مقابل ایک شدید رد عمل پر آمادہ ہو جاتا ہے“

یہ درست ہے کہ مولانا ظفر علی خان کے طنزیہ انداز بیان میں برہمی کے باعث ظریفانہ پہلو دب جاتا مگر بات یہ ہے کہ مولانا ظفر علی خان نہ تو عام زندگی میں مصلحت پرست تھے اور نہ سیاست و ادب میں اور اس سلسلہ میں فرماتے ہیں۔ نکل جاتی ہو سچی بات جس کے مُنہ سے مستی میں فقیہہ مصلحت بیں سے وہ رند بادہ خوار اچھا بہر حال وہ دور جس میں مولانا ظفر علی خان جےئے اور ہے۔ وہ مسلم سیاسیات کا ایک ہنگامہ خیز دور تھا اسی عہد میں خود مولانا نے کئی تحریکوں کو جنم دیا اور چلایا پھر اپنے ہاتھوں دفن بھی کیا لیکن ایک بات حقیقت ہے کہ انہوں نے افرنگی استعمار کے خلاف نعرئہ مستانہ بلند کیا اتحاد عالم اسلامی کے کوشاں ختم نبوت کے پرستار اور تحریک پاکستان کے صف اول کے رہنما رہے اور اغیار کے ساتھ چومکھی لڑائی لڑی اور خوب لڑی۔ پیچ گاندھی کی لنگوٹی کا چلے تھے کھولنے کش مکش میں اپنی بھی پتلون ڈھیلی ہو گئی تہذیب نو کے منہ پہ وہ تھپٹر رسید کر جو اس حرام زادی کا حلیہ بگاڑ دے جو بات بات پہ تم کو حرام زادہ کہے ہر اےسے سفلہ سے اور بد زبان سے بچیو گاندھی جی سے ایک خاص تعلق خاطررہا۔ ان کی سےاست اور ذہنیت دونوں کو پہچان گئے تھے اور کوئی لمحہ ان پر طنز کے نشتر چلانے سے خالی نہ جانے دیتے تھے۔ ان کی لنگوٹی خاصی مشہور مولانا لکھتے ہیں تو نے گاندھی کی لنگوٹی کی جہاں رکھ لی ہے شرم میرے تہمد کو بھی یا رب فتح دے پتلون پر بھارت کی بلائیں دو ہی تو ہیں اک گاندھی ہے ایک ساور کر ہے اک مکر کی اٹھتی آندھی ہے ایک جھوٹ کا چلتا چکر ہے کانگرس میں چند نیشنلسٹ ملا شامل تھے۔ جو متحدہ قومیت کا راگ الاپتے رہتے تھے اور نظریہ پاکستان کی مخالفت میں پیش پیش۔ مولانا خود مسلم لیگ سے وابستہ تھے اور انہوں نے قرار داد پاکستان کی تائید بھی کی تھی۔ وہ بھلا ان لوگوں کو کب برداشت کر سکتے تھے۔ فرماتے ہیں کانگرس نے پال رکھے ہیں عرب کے چند اونٹ عالم اسلام ہے اب بے سہاروں کے خلاف اسی طرح انہوں نے انگریز کے حامی عناصر کو ”ٹوڈیوں“ کا خطاب دیا۔ ان میں خطاب یافتہ طبقہ بھی شامل تھا مولانا ان لوگوں کو آزادی وطن کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ گردانتے تھے اور ان پر طنز و مزاح کے نشتر چلاتے رہتے ہیں۔ جب سے ہم میں آنریبل اور سر پیدا ہوئے سوئے فتنے جاگ اٹھے اور شر پیدا ہوئے پاس ناموس شریعت شرع دانوں کو نہیں حامی دینِ مبیں سب نیم ٹر پیدا ہوئے سرمئہ چشم حسیناں بن گئی تہذےب غرب خرمن غیرت کے گھر برقی شرر پیدا ہوئے دیکھنا تھا ہم کو ان آنکھوں سے یہ بھی انقلاب آدمی سب ہو گئے گم اور خر پیدا ہوئے 1937ء کے انتخابات میں ایک نیشنلسٹ لیڈر بشیر احمد بھٹہ نے مسلم لیگی امیدوار کا مقابلہ کیا اور منہ کی کھائی یعنی الیکشن ہار گئے۔ کانگرس نے اس کے لئے بہت کوشش کی تھی مگر ناکامی سے دو چار ہوئے۔ مولانا نے اسی موقع پر لکھا اگر مینہ زور سے برسا تو گل جائیں گی دیواریں کہ اینٹیں ساری کچی ہیں بشیر احمد کے بھٹے کی بتوں سے جا ملے کٹ کر ہمارے مولوی ہم سے نہ رکھی شرم انہوں نے اپنی پیشانی کے گٹے کی سر میاں محمد شفیع سے اختلاف ہوا جنوں نے اپنی الگ جماعت مسلم لیگ شفیع گروپ بنا لی تھی تو مولانا نے لکھا: کون کہتا ہے کہ بے کار لاہور کی لیگ ملک سے برسر پےکار ہے لاہور کی لیگ

جس سے پنجاب میں انگریز کا جلتا ہے دیا آج اسی قتل کی اک دھار ہے لاہور کی لیگ
جتنے اس خطے میں ٹوڈی ہیں مبارک ہو انہیں کہ غلامی کی طلب گار ہے لاہور کی لیگ
جان و دل سے ہے یہ قربان مسلمانوں پر فقط اسلام سے بیزار ہے لاہور کی لیگ

افغانستان میں جب امان اللہ خان کی حکومت کو زوال آیا اور بچہ سقہ بر سر اقتدار آ گیا تو مولانا نے لکھا: گدھوں کی آج کل کابل میں ہے ایسی فراوانی گماں ہوتا ہے یہ انساں وہاں پیدا نہیں ہوتے ہوا کرتے ہیں پیدا رات دن سقوں کے گھر بچے مگر ہر روز امان اللہ خاں پےدا نہیں ہوتے مولانا ظفر علی خان نظم کے علاوہ نثر میں طنزیہ و مزاحیہ انداز میں لکھتے تھے ”انقلاب“ اور ”زمےندار“ کی حریفانہ چپقلش تھی۔ ایک بار سالک نے ”انقلاب“ میں لکھا ”یہ خلافت کی بلیاں کیوں ہمارا کھمبا نوچنے پر آمادہ ہیں“ مولانا ظفر علی خان نے جواباً تحریر کیا کیوں حضرت ، خلافت کے ابو ہریرہ ےعنی مولانا عبدالقادر قصوری کے متعلق کیا ارشاد ہے پس منظر یہ تھا کہ ”انقلاب“ کے اجرا پر مولانا عبدالقادر قصوری نے سالک اور مہر کی مالی امداد کی تھی جبکہ سالک صاحب نے خلافت کے لیڈروں پر چوٹ کی اور مولانا ظفر علی خان مجلس خلافت پنجاب کے صدر تھے۔ ایک بار مولانا مجلس احرار اسلام کے خلاف ہو گئے۔ ایک دور میں اسی جماعت کے حامی تھے۔ مگر وہ سب بھول گئے اور کہا اللہ کے قانون کی پیمان سے بیزار اسلام اور ایمان اور احسان سے بیزار ناموس پیمبر کے نگہبان سے بیزار کافر سے موالات مسلمان سے بیزار اس پر ہے یہ دعویٰ کہ ہیں اسلام کے احرار احرار کہاں کے یہ ہیں اسلام کے غدار بیگانہ ہیں بدبخت یہ تہذیب عرب سے ڈرتے نہیں اللہ تعالیٰ کے غضب سے مل جائے حکومت کی وزارت کسی ڈھب سے سرکار مدینہ سے نہیں ان کو سروکار اور جب حامی احرار تھے تو لکھا تھا اگر ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہوئے تو وہ اس عہد میں پنجاب کے احرار ہوئے ہڈیاں جن کی ہیں چونا تو لہو ہے گارا قیصر آزادی کشمیر کے معمار ہوئے مولانا ابوالکلام آزاد پر چوٹ کی تو فرمایا بو الکلام آزاد سے یہ پوچھتے ہیں دل جلے آج کل تم پیشوائے امت مرحوم ہو کٹ کے اپنوں سے ملے ہو جا کے تم اغیار سے پھر یہ کہتے ہو کہ ہم ظالم ہیں تم مظلوم ہو جب کانگرس میں تھے تو کراچی کے اجلاس میں نماز کے سوال پر تنازع ہو گیا تو فرمایا ادب نماز کے اوقات کا وہ سیکھے گی میں کانگرس کو مسلماں بنا کے چھوڑوں گا پھر فرماےا: نہےں ہندوستان آزاد ہو سکتا قےامت تک اگر ےونہی رہی ہندو سبھا کی فتنہ انگیزی ادھر ہ یں بھائی پر مانند ادھر ہیں ڈاکٹر مونجے وہ ہیں تلخی بکائین کی تو یہ ہیں مرچ کی تیزی ہے فرق اتنا ہی پر مانند اور چرچل کی فطرت میں وہ زہریلی یہ قہریلی وہ شیطنگی یہ چنگیزی جب 1935ءمےں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ آیا تو مولانا ظفر علی خان نے بڑی جرات سے اس کی مخالفت کی اور اسے نامکمل قرار دے کر افرنگی حکومت کو للکارا: صدر اعظم کی سخاوت میں نہیں ہم کو کلام لیکن ان سے پوچھتے ہیں ہم، کہ ہم کو کیا دیا کاغذی گھوڑا دیا ہم کو سواری کے لئے اک کھلونا بھیج کر بچوں کا دل بہلا دیا اپنے پینے کے لئے شیمپین بھر لی جام میں ہند کے رندان درد آشام کو ٹھرا دیا میوہ خوری کے لئے چننے لگے جب گول میز رکھ لئے خود مغز چھلکوں پر ہمیں ٹرخا دیا بھےنس استعمار کی گابھن ہوئی مدت کے بعد اور بڑی دقت سے اصلاحات کا انڈا دیا

اس ضمن میں پیر علی شاہ راشدی نے بڑے پتے کی بات لکھی تھی۔ جس میں مولانا ظفر علی خان کی اہمیت کو اجاگر کیا لکھتے ہیں۔ ”قدرت نے ایک بہت ہی بڑے مقصد کے لئے ایک خاص دور میں اور ایک خاص علاقے میں ظفر علی خان کو بھیجا۔ یہ دور” خاص دور“ اس لحاظ سے تھا کہ اس میں افرنگی حکمران کی جڑیں مضبوط ہونے لگی تھیں اور قدرت مضبوط دیکھنا نہیں چاہتی تھی۔ علاقے کا انتخاب اس وجہ سے ہوا کہ وہاں ایسے شخص کو نسبتاً زیادہ ضرورت تھی۔ یہ فرنگی حاکم اس علاقے کو اپنے مقاصد کے لئے بے حد اہم سمجھتا تھا۔ یہیں سے فوج کے لئے اس کو بہترین انسانی مواد ملتا تھا۔ انگریز کی فوج کا تنہا مسلمان جرنیل سر عمر حیات خان مرحوم اس علاقے سے تعلق رکھتا تھا“ گویا ظفر علی خان کا وجود ایسے لوگوں کے لئے ایک تازیانہ سے کم نہ تھا مسلمانوں کی فکری و نظری حالت زار پر لکھتے ہیں جائزہ عہد میں اسلام کا ہم نے جو لیا تو مساجد کے عوض چند شوالے نکلے نہ غزالی ہے نہ رازی ہے کتب خانوں میں میز پر مل ہیں تو بستر سے مکالے نکلے شرک سے جا کے یہ کہہ دو کہ ہے توحید وہ جن جو نہ روکے سے رکے اور نہ نکالے نکلے چند مزاحیہ اور طنزیہ اشعار ملاحظہ فرمائیے اسلام سرنگوں نہ ہو کیوں ان کے سامنے تھامے ہوئے ہوں جن کا علم سر عمر حیات ملتی رہی ہے جس کو ہمارے لہو کی بھینٹ ہیں اس صنم کدہ کے صنم سر عمر حیات ہے ڈر انگریز کا جن کے دلوں میں وہ ٹوڈی گھس گئے اپنے بلوں میں آیا ہمارا نام تو سرکار کے غلام بولے کہ بدمعاش ہیں یہ سب چھٹے ہوئے عہد کے ناموس کی تذلیل سے لاہور میں بھر دی انگلستان کی گودی لیڈران قوم نے کہہ رہے تھے ڈاکٹر عالم یہ افضل حق سے آج قوم کی لٹیا ڈبو دی لیڈران قوم نے یکایک کی ہے گم پرماتما نے ان اوندھی کھوپڑی والوں کی بدھی کہیں مسلم بھی بن سکتا ہے کافر کبھی مومن بھی ہو سکتا ہے شدھی لوٹی بہار آ کے تصوف کے باغ کی انگریز کا مذاق بھی کتنا لطیف ہے تونسہ بھی ہے شریف علی پور بھی شریف القصہ جو شریف ہے اس کا حلےف ہے یہ تو ممکن ہے کہ ہو پنجاب میں اسلام راج یہ نہیں ممکن کہ پھر قائم یہاں ہو رام راجیوں ہی گر ہوتی رہی ناممکن اور ممکن کی بحث اٹھ نہیں سکتا قیامت تک بھی یارو ٹام راج مولانا ظفر علی خان کے طنزیہ انداز نگارش کے بارے میں پروفیسر رشید احمد صدیقی نے لکھا تھا۔ ”ظفر علی خان طنزیات میںید ِطولیٰ رکھتے تھے۔ اُن کے یہاں شدت تو ہے لیکن زہر ناکی کا گزر نہیں ان کی طنز میں عملاً قوت اور بیداری پائی جاتی ہے وہ تپش کے قائل ہیں۔ تپسیا کے نہےں اس مزاج اور انداز کا نادر الکلام اردو شاعر اور نثر نگار اس صدی میں اب تک پیدا نہیں ہوا۔ ان کی پیروی کرنے والے چالےس پچاس سال میں جس کثرت سے پیدا ہوئے اور ان پر جتنی گہری چھاپ ظفر علی کے لب و لہجہ اور تیورو تحریر میں ملتی ہے ہندوستان کی شاید ہی کسی اور زبان کی صحافت یا صحافیوں میں مل سکے“ ایک عظیم طنز و مزاح نگار کا ایک بڑے طنز نگار کو اس سے بڑھ کر اور کیا خراج تحسین ہو سکتا ہے