کیا آپ یقین کریں گے کہ گذشتہ صدی کے اوائل میں مولانا ابوالکلام آزاد، آغا حشر اور کچھ دوسرے نوجوانوں نے بمبئی سے جو ماہانہ رسالہ ”البلاغ“ کے نام سے نکالاتھا، اس کا ایڈیٹرانہوں نے اپنے ذاتی خدمت نگار مسمی کالے خان کو مقرر کیا تھا۔ اس دلچسپ اور غیر معمولی صورتحال کے متعلق عبدالمجید سالک مرحوم نے ، یاران کہن، نامی اپنی کتاب میں اس کاتذکر ہ کیا ہے۔ اس کتاب میں آغا حشر کے بارے میں اپنے مضمون کے آغاز میں انہوں نے متذکرہ رسالے اور اس کے فاضل ایڈیٹر کے بارے میں جو کچھ بیان کیا ہے وہ انہی کے الفاظ میں پڑھئے۔

سالک مرحوم لکھتے ہیں ”آغا محمد شاہ حشر کاشمیری نے جب اپنے گھر کی فضا کو اپنے فنی رحجانات کے خلاف پایا تو بھاگ کربمبئی پہنچ گئے اور تھیٹر کی دنیا میں اپنے لئے گنجائش پیدا کرنے کی کوشش کر دی۔ اس وقت حسن اتفاق سے چند اور ذہین و طباع نوجوان بھی بمبئی میں موجود تھے۔ چنانچہ آغا حشر، مولانا ابوالکلام آزاد اور ان کے بھائی ابو النصر غلام یاسین آہ، نظیر حسین سخا اور ایک آدھ اور صاحب کی ”منڈلی“ قائم ہو گئی۔ چند روز مولانا ظفر علی خان بھی ان میں شامل رہے لیکن جلد ہی کسی کاروبار کے سلسلے میں وہ سومالی لینڈ چلے گئے۔ چونکہ یہ لوگ تلاش روزگار کے سوا کوئی اور مشغلہ نہ رکھتے تھے اس لئے انہوں نے کوئی شغل اختیار کرنے کی کوشش کی۔ اس زمانے میں کوئی سیاسی سٹیج موجود ہی نہ تھا۔ مذہبی مناظروں کا زمانہ تھا اور لوگ آریوں اور عیسائیوں کے ساتھ مسلمانوں کے مباحثوں میں بڑے ذوق شوق سے شریک ہوا کرتے تھے۔ ان حضرات نے بھی مناظرے کا ایک سٹیج قائم کر لیا اور ایک انجمن نصرتِ سلام کی بنیاد رکھی جس کے آرگن کی حیثیت سے ایک ماہانہ رسالہ ”البلاغ“ کے نام سے جاری کیا۔ میں نے اس رسالے کے دو ایک پرچے آغا حشر کے پاس دیکھے۔ اس کے مضامین زیادہ تر دینی اور مناظرانہ ہوتے تھے اور مولانا ابوالکلام اس کو مرتب کرتے تھے لیکن چونکہ ان سب دوستوں کی زندگیوں کا مستقبل غیر یقینی تھا اس لئے بے نقاب ہو کر کسی انجمن یا رسالے سے اپناتعلق قائم نہ کرنا چاہتے تھے۔

اس مشکل کو حل کرنے کی یہ تدبیر کی گئی کہ مسمی کالے خاں جو ان کا خدمت گار تھا اور بالکل ان پڑھ اور کندہ نا تراش واقع ہوا تھا، نام نہاد طور پر انجمن کا سیکرٹری اور رسالے کا ایڈیٹر بنا دیا گیا اور اس کا نام مولوی عبدالرﺅف خاں تجویز ہوا۔ اب گھر پر تو نام وہی کالے خاں چلتا تھا ”کالے خاں پانی پلاﺅ، کالے خاں چلم بھرو۔ ابے کالے خاں، ادھر آ کم بخت کیا کر رہا ہے وغیرہ“ لیکن لوگوں کے سامنے اس کو مولوی عبدالرﺅف خاں صاحب اور سیکرٹری صاحب اور ایڈیٹر صاحب کہہ کر مخاطب کیا جاتا تھا۔ ہر دوسری تیسرے دن یہ لوگ کسی نہ کسی پادری یا آریہ سماجی پر چارک کو پکڑ لاتے اور جلسہ عام میں مناظرہ کر کے ا س کا قیمہ کر ڈالتے۔ یہاں تک کہ رام چندر دہلوی اور پادری طالب دین جیسے پرانے گھاگ بھی ان کے پنجے میں گرفتار ہوئے۔ مولانا آزاد اور مولانا ابو النصر کا علم و فضل، نظیر حسن سخا کی فی البدیہہ شاعری اور آغا حشر کے جوش خطابت اور ضلع جگت کا مقابلہ کسی عیسائی یا آریہ سماجی کے بس کا روگ نہ تھا۔ ہزاروں لوگ ان جلسوں میں شریک ہوتے تھے اور ان مناظرین اسلام کی تقریروں پر جوش و خروش کا اظہار کرتے تھے“ سالک صاحب کے بیان کے مطابق مناظرے کا یہ شغل چونکہ ان لوگوں کے لئے روٹی روز گار کا بندوبست نہیں کر سکا تھا اس لئے جلد ہی ختم ہو گیا۔ یہ قصہ ہے گذشتہ صدی کے اوائل یا انیسویں صدی کے آخری برسوں کا۔ ہمارے لئے اس میں حیرت کی بات یہ ہے کہ آغا حشر تو خیر تھے ہی ڈرامے کے آدمی اور عمر بھر اپنے آپ کو انڈین شیکسپئر کے القاب سے نوازتے رہے لیکن اس قسم کے ڈرامائی کھیل میں مولانا ابوالکلام کی شرکت کا معاملہ کچھ عجیب معلوم ہوتا ہے مگر یہ یقیناً درست ہے ۔ اس لئے کہ 1955ءمیں اس کتاب کی اشاعت کے بعد مولانا آزاد نے اس کے ایک دو مندرجات پر اعتراض ضرور کیا تھا اور اس بارے میں کتاب کے ناشر کو ان کے سےکرٹری کا خط بھی موصول ہوا تھا لیکن ”البلاغ“ کے ایڈیٹر کالے خاں عرف مولوی عبدالرﺅف کے ذکر کی تردید نہیں کی گئی۔ آغا حشر کے اس قسم کے بہت سے اور قصے بھی ہم نے سن رکھے ہیں۔ ہماری فلم ”آزادی کی راہ پر“ کے موسےقار ایک صاحب مشتاق نامی تھے، 1946-47ء میں اس فلم کی تکمیل کے دوران ان سے بہت صحبتیں رہیں۔ وہ کافی عرصہ کلکتے میں آغا حشر کے ساتھ بطور ان کے اسسٹنٹ کے منسلک رہے تھے اور آغا صاحب کے قصے کہانیاں مزے لے لے کر بیان کیا کرتے تھے۔ ان کا بیان کردہ ایک واقعہ ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں لیکن قند مکرر کے طور پر دہرانے میں مضائقہ نہیں سمجھتے۔ ان کے بیان کے مطابق ایک روز آغا صاحب اپنی کوٹھی کے لان میں گھاس پر لیٹے ہوئے فکر سخن میں مبتلا تھے کہ اندر سے ان کی محبوبہ مختار بےگم عرف داری برآمد ہوئی۔ اس نے لان میں آتے ہی بڑے لاڈ اور پیار سے اپنا پاﺅں آغا صاحب کے سر پر رکھ دیا، پاس ہی آغا حشر کا ایک پٹھان شاگرد کھڑا تھا۔ اس نے یہ منظر دیکھتے ہی فوراً چاقو نکال لیا اور یہ کہتے ہوئے داری پر حملہ کرنے بڑھا کہ ”کمبخت عورت تو آغا صاحب کے سرکی بے حرمتی کر رہی ہے“ یہ سنتے ہی آغا حشر اٹھے، شاگرد کو ایک زور دار تھپڑ رسےد کرتے ہوئے بولے ”ابے سور کے بچے ! آغا صاحب کا سر ہے یا قرآن شریف جو تو جہاد کرنے چلا ہے“۔