سکندر فاتح کی حیثیت سے ایران میں داخل ہوا تو اسے ایک ڈبہ پیش کیا گیا ۔یہ ڈبہ انسانی صناعی کا ایک ایسا شہکار تھا جسے دیکھ کر سکندر مبہوت ہو گیا۔ فاتح عالم کی آنکھوں میں تحیر پھیل گیا اس کے چہرے پر بچوں جیسی سرشاری ٹھہر گئی اور انگلیاں بے اختیار اس فنکارانہ معجزے کا طواف کرنے لگیں۔ جب اس کےفیت میں گھڑیاں گزر گئیں تو اس نے وہ ڈبہ واپس کر دیااور کہا ”مجھ فقیر کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں جوڈبے میں رکھی جا سکے جسے اس کے شایان شان سمجھا جا سکے“ غلام خیمے سے جانے لگا تو سکندر نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روکا اور پھر ذرا سی بے تابی سے بولا ”لیکن میرے پاس ایلےڈ کا ایک نسخہ ہے ۔ ادلمپس پر بسنے والے دیوتاﺅں کی قسم! دنیا کا یہ واحد خزانہ ہے جسے اس ڈبے میں رکھا جا سکتا ہے

سکند کا خیال درست تھا یونان کے اندھے شاعر ہومر کا یہ شہکار واقعی اس قابل تھا کہ اسے صندل کی لکڑی جس میں دنیا کے قیمتی ترین جواہرات جڑے تھے اور جس میں کےلوں کی جگہ سونے کی سلاخیں اور قفل کی جگہ چاندی کی تاریں تھیں اسے اسی ڈبے میں رکھا اور سنبھالا جاتا ۔ایلیڈ زبان اور تخیّل کا ایک ایسا معجزہ ہے جسے اگر اہل یونان دیوتاﺅں کا کلام نہ کہتے تو بے انصافی ہوتی اور جو اگر آج دو ہزار سات سو برس بعد بھی زندہ نہ ہوتا تو انسان کا اشرف المخلوقات ہونا، باشعور کہلانا اور صاحب علم سمجھاجانا مشکوک ہو جاتا۔ ان دو ہزار سات سو برسوں میں تاریخ ہومر کے بارے میں شک کا شکار رہی۔ محقق طویل عرصہ تک ہومر کے ہونے یا نہ ہونے پر پریشان رہے۔ لوگ صدیوں تک ہومر کے اندھے پن پر معترض رہے۔ کہنے والے کہتے رہے ہومر ایک نہیں دو تین لوگ تھے جنہوں نے مل کر ایلیڈ اور اوڈیسی جیسے شہکار تخلیق کئے۔ لیکن 750ق م سے 2000ءب م تک لوگ اس حقیقت پر متفق رہے ایلیڈ اگر الہام نہیں تو ایک ایسا معجزہ ضرور ہے جس کی قیامت تک مثال پیش نہیں کی جا سکتی۔

یہ ہومر بھی ایک عجیب پر اسرار کردار تھا۔ اسے کسی نے نہیں دیکھا۔ یہ کب پیدا ہوا، اس نے ایلےڈ پہلے تخلیق کیا یا اوڈیسی، یہ کب مرا، کہاں مرا، اس کی قبر کہاں ہے۔ تاریخ کے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں۔ تاریخ تو بس اتنا جانتی ہے جب ایلیڈ یونان کی سرحدوں سے نکل کر عالمی ادب کا حصہ بنا تو یونان کی سات ریاستوں میں لڑائی چھڑ گئی، ایتھنز والے کہنے لگے ہومران کا تھا آرگوس کے شہریوں نے دعویٰ کیا نہیں ہومر میری پراپرٹی ہے، چیوس کے لوگوں نے ہومر کا ایک قصبہ دریافت کر لیا۔ کولو فون کی حکومت نے ایک کھنڈر پر تختی لگا کر اسے ہومر کا گھر ڈیکلےئر کر دیا، رہوڈز کی انتظامیہ نے وہ چٹان تلاش کر لی جس پر بےٹھ کر اس نے دیوتاﺅں کی کانفرنس کا باب لکھا تھا۔ سلامیس کے بادشاہ نے ہومر کی چھڑی، شراب کا پیالہ اور قلم درےافت کر لیا اور سمرنا کے فنکاروں نے اس کی قبر بنا لی۔ ہومر کی ملکیت کا یہ جھگڑا دنیا کا قدیم ترین تنازعہ ہے۔ آج اس ایشو کو دو ہزار سات سو پچاس برس گزر چکے ہیں لیکن ان سات میں سے ایک ریاست بھی ہومر کی ملکیت سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں۔ ہر ریاست کا دعویٰ ہے ہومر اس کا ہے اس حق ملکیت کے لیے پونے تین ہزار سال میں کئی جنگیں ہوئیں۔ سینکڑوں لوگ مارے گئے لیکن تا دم تحریر یہ تنازعہ حل ہوا اور نہ ہی اس کے حل ہونے کے امکانات ہیں۔

تنازعہ حل ہونا بھی نہیں چاہیے کیونکہ یہ مسئلہ سات ریاستوں کے زندہ ہونے کا ثبوت ہے۔ دنیا کے تمام زندہ شہر، تمام زندہ ریاستیں اور تمام زندہ ملک اپنے شاعروں، اپنے ادیبوں ، اپنے ہیروﺅں اور اپنے لیڈروں کے لیے ایسے ہی لڑا کرتے ہیں۔ جو ملک، جو ریاستیں اور جو شہر اپنے لیڈروں، اپنے ہیروﺅں ، اپنے ادیبوں اور اپنے شاعروں کو دوسروں کے حوالے کر دیں، فراموش کر دیں، بھول جائیں، ان شہروں ان ریاستوں اور ان ملکوں کو زندہ ہونے کا دعویٰ نہیں کرنا چاہیے۔ انہےں ز یب نہےں دےتا وہ سڑکوں، عمارتوں ، گلےوں اور مکانوں کو شہر کہےں، قبرستانوں کو بستےوں کا نام دیں۔ یہ وہ لٹمس ٹیسٹ ہے جس سے قوموں کی پہچان قوموں کی شناخت ہوتی ہے۔ اگر ہم اس شناخت ، اس پہچان کو حقیقت مان لیں تو یقین کیجئے ہم 27نومبر کو اس لٹمس ٹیسٹ میں ناکام ہو چکے ہیں۔

اس 27نومبرکو مولانا ظفر علی خان کی 44 ویں برسی تھی۔ اس مولانا ظفر علی خان کی برسی جو نہ ہوتے ، جن کا اخبار ”زمیندار“ نہ ہوتا تو شاید پاکستان بنتے بنتے دس بیس سال مزید لگ جاتے۔ فصل جب پک جاتی ہے تو کٹ جاتی ہے۔ وہ لوگ بہت خام خیال ہوتے ہیں جو اس کٹی ہوئی فصل کا سارا کریڈٹ کاٹنے والے کو دے دیتے ہیں۔ ان لوگوں کو خام خیال ہی کہا جا سکتا ہے جو فصل کاٹنے والے کی تکریم میں یہ بھول جاتے ہیں، یہ فصل کسی نے بوئی بھی تھی اس فصل کے لیے کسی نے کھیت بھی تیار کیا تھا، کسی نے زمین بھی ہموار کی تھی کسی نے پانی بھی دیا تھا کوئی راتوں کو جاگا بھی تھا اور کسی نے ساری دھوپیں، ساری سردیاں اپنے بدن پر جھیلیں تھیں۔ اور یہ لوگ مولانا ظفر علی خان جیسے لوگ ہی تھے جو دس بیس سال نہیں چالیس چالےس پچاس پچاس سال تک موسم کی شدتیں اپنے بدن پر سہتے رہے۔ جو راتوں کو جاگتے رہے، مٹی توڑتے رہے اور بیج بوتے رہے یہاں تک کہ ہم یہ فصل کھا رہے ہیں ان ٹھنڈے درختوں کے ٹھنڈے سائے میں آرام کر رہے ہیں جو ظفر علی خان نے لگائے اور جو ظفر علی خان نے بوئے۔ اس مولانا ظفر علی خان کو اس قوم نے صرف 44برس میں بھلا دیا کہ آج 27نومبر کو 14کروڑ زندہ لوگوں کے اس ملک میں صرف وزیر آباد میں مولانا کی یاد میں ایک فنکشن ہوا اور بس! اس حادثے، اس سانحے کے بعد بھی اگر ہم خود کو قوم کہیں تو تف ہے ہم پر۔ قومیں تو یہ ہوتی ہیںدوہزار سات سو پچاس برس گزر چکے ہےں لیکن یونان کی سات ریاستیں ایک اندھے شاعر کے لیے لڑ رہی ہیں۔ دنیا جانتی ہے وہ قبر ہو مر کی نہیں لیکن سمرنا کے لوگ نہیں مانتے ۔ دنیا جانتی ہے وہ پیالہ، وہ چھڑی ، وہ چٹان، وہ کھنڈر اور وہ متروک قصبہ بھی ہومر کا نہیں لیکن نہیں مانتے تو ایتھنز ، آرگوس، چیوس، کولوفون، رہوڈز اور سلامیس کے لوگ نہیں مانتے۔ ایک وہ لوگ ہیں جو ایک اندھے شاعر کے لیے پونے تین ہزار سال سے لڑ رہے ہیں اور ایک ہم ہیں جنہوں نے 44برسوں میں ایک ایسے شاعر، ایک ایسے صحافی اور ایک ایسے لیڈر کو بھلا دیا جس کے لیے نرگس ہزاروں سال تک روتی ہے۔

ظالمو 27نومبر کو اپنے محسن کی قبر پر پھول ہی چڑھا دیا کرو۔ بڑے شہروں میں ایک آدھ سےمینار ہی کرا دیا کرو۔ زمےندار مرحوم کی اس عمارت جس میں اب ہوٹل بن چکا ہے اس کو ”ایوان ظفر“ ہی بنا دو۔ زمیندار کی فائلیں ہی کتابی شکل میں چھاپ دو اور نہیں تو ظفر علی خان کی جائے پیدائش وزیر آباد کا نام ہی ”ظفر آباد“ رکھ دو۔ کچھ تو کرو جس سے اس عظیم شخصیت کے احسان اتریں نہ اتریں لیکن ہم احسان فراموشی کے الزام سے تو بچ جائیں۔ خدا کے لیے کچھ کریں کیونکہ جو قومیں اپنے محسنوں کو بھلا دیا کرتی ہیں خدا بھی ان پر اپنے احسانات کے دروازے بند کر دیا کرتا ہے۔