مولانا ظفر علی خان جن کی تمام عمر برطانوی ”ٹام راج“ اور ہند و ”رام راج“ کے خلاف جہاد کرتے اور جیل کی سختیاں اور زمیندار کی ضمانتوں کی ضبطیاں برداشت کرتے گزری، قیام پاکستان کے فوراً بعد ایسے مفلوج ہوئے کہ عمر کے آخری نو دس سال اپنے چھوٹے بھائی راجہ غلام حیدر اپنے بیٹے اختر علی خان اور اپنے پوتوں منصور علی خان اور مسعود علی خان کے سہارے زندگی بسر کرتے رہے اور سچ پوچھئے تو زندگی کہاں بسر کرتے رہے زندگی انہیں بسرکرتی رہی۔ 1948ءکے بعد زیادہ تر مری میں رہے۔ کسی سال مارچ کے وسط میں اور کسی سال اپریل کے شروع میں مری آجاتے اور اکتوبر کے آخر تک اور اگر موسم نہ بگڑ جاتا تو نومبر کے وسط تک یہیں قیام فرماتے۔ مری سے جھینگا گلی جاتے ہوئے پہلے موڑ پر ایک چھوٹی سی کوٹھی ومبلڈن کاٹج کے نام ہوا کرتی تھی، جو حکومت نے مولانا کے لئے الاٹ کر دی تھی۔ جب تک مولانا زندہ رہے، اسی کاٹیج میں قیام پذیر رہے ۔ چاہیے تو یہ تھا کہ اس کاٹج کو مولانا کی یادگار کے طور پر مستقلاً محفوظ کر لیا جاتا، مگر یہ سعادت صرف مغربی اقوم کو میسر ہے۔ جنہوں نے لندن میں اس گھر کو جس میں قائد اعظم کچھ عرصہ رہے تھے اور میونخ میں اس مکاں کو جہاں علامہ اقبال نے زندگی کا نہایت قلیل عرصہ بسر کیا تھا، یادگاروں کی صورت دے دی ہے۔ بلکہ مغربی جرمنی والوں نے تو ہمارے عظیم فلسفی شاعر کے نام پر ایک نہایت خوبصورت سڑک بھی مختص کر دی ہے۔ مری میں وہ مکان جو اتنی کم قیمت کا تھا اسے میونسپل کمیٹی بھی بلا تر دو خرید کر مولانا ظفر علی خان کے نام سے منسوب کر سکتی تھی، کب کا نابود ہو چکا ہے ۔ کیونکہ اس مقام پر ارد گرد کی کچھ زمین حاصل کر کے کسی سرمایہ دار نے ایک بہت بڑا ہوٹل تعمیر کر لیا ہے ۔ مولانا ظفر علی خان کے نام سے کیا حاصل ہوتا۔ ہوٹل بننے سے چھنا چھن دام حاصل ہو رہے ہیں اور جذبات کے بندھنوں سے آزاد ہو کر دنیا کمائی جا رہی ہے۔ یہاں کوئی شخص یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ دین گنوایو دنی سے اور دنی نہ آئیو ہاتھ۔ دین کی بات تو عاقبت سے متعلق ہے کیا جانے کسے عاقبت حاصل ہو اور کون محروم رہے لیکن دنیا تو ایسی حاصل ہو رہی ہے کہ ماشاءاللہ۔ میں اس زمانے میں اپنی ملازمت کے سلسلے میں مری ہی میں مقیم تھا اور مولا ظفر علی خان کامری ہی میں قیام۔ ہم چند اہل قلم کے لئے جو وہاں مستقلاً رہتے تھے ایک نعمت عظمیٰ سے کم نہ تھا ۔ میں تو اکثر مولانا کی خدمت میں حاضر ہتا اور ان کی دلچسپ گفتگو سے لطف اندوز ہوتا۔ یہ عجیب بات ہے کہ مولانا کا جسم تو کم سکت بلکہ تقریباً بے سکت ہو چکا تھا لیکن ان کا ذہن بالکل ٹھیک کام کرتا تھا۔ 1949ءمیں ہم نے ادب میں پاکستانی اقدار کے فروغ کے لیے ایک مجلس قائم کی جس میں موجودہ پاکستان اور اس دور کے مغربی پاکستان کے نامور اہل قلم شامل ہوئے۔ اس مجلس کا صدر مولا ظفر علی خاں کو منتخب کیا گیا جبکہ اس کے مرکزی نائب صدر حکیم محمد حسن قرشی تھے۔ صوبہ پنجاب ، صوبہ سرحد، صوبہ سندھ کے صدر بھی منتخب کئے گئے، جو عہدہ کے اعتبار سے مرکز کے نائب صدر بھی ہوتے تھے۔ مجلس عاملہ میں جسٹس ایس اے رحمن ، خلیفہ عبدالکریم ، ایم اسلم، ڈاکٹر بشارت علی، نذیر مرزا برلاس، سید ضیا جعفری، مجید شاہد اور کئی دیگر نامور شخصیتیں شامل تھیں۔ اگست 1949ءمےں ہم نے ایک سہ روزہ ادبی کانفرنس منعقد کی جس میں تمام ملک سے بڑے بڑے نامور اہل قلم شریک ہوئے۔ اس کانفرنس کی مکمل روائیداد پر مشتمل ماہنامہ ”پرواز“ لائل پور کا ایک خصوصی شمارہ شائع ہوا تھا جس میں خطبات اور منتخب مقالات شائع کئے گئے تھے۔ کانفرنس کا اختتامی اجلاس ایک مجلس مشاعرہ کی صورت میں منعقد ہوا۔ میں نے اس کی صدارت کے لئے جناب مولانا سے درخواست کی، جسے انہوں نے فوراً قبول کر لیا، لیکن ان کے معالج حکےم محمد حسن قرشی اور ان کے تےمار دار چھوٹے بھائی راجہ غلام حیدر مانع ہوئے اور انہوں نے مجھ سے کہا کہ صدارت کسی اور سے کرائیں اور اس مقصد کے لئے جسٹس ایس اے رحمن کا نام بھی تجویز کیا۔ لیکن میں نے کہا کہ مولانا دعوت قبول کر چکے ہیں۔ اب اگر وہ خود انکار کریں تو اور بات ہے، میں ان سے نہیں کہہ سکتا۔

بڑی ردوکد کے بعد طے ہوا کہ مولا صرف ایک گھنٹے کے لیے صدارت فرمائیں گے۔ ایک گھنٹے بعد ہم انہیں اٹھا لائیں گے ۔ میں نے ان کی یہ پیش کش فوراً مان لی، کیونکہ میں جانتا تھا کہ ایسا ہو گا نہیں۔ مشاعرہ رات 9 بجے شروع ہوا۔ ایمبیسڈرہال شائقین سخن سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ مولانا بڑے خوشگوار موڈ میں تھے۔ میں مولانا کے پاس بیٹھا اپنی باتوں سے ان کے خوشگوار موڈ کو خوشگوار تر بنانے میں مصروف تھا اور ان کے چہرے سے یوں لگ رہا تھا کہ جیسے وہ کبھی بیمار ہی نہ ہوئے تھے۔ ایک گھنٹہ گزرا تو راجہ غلام حیدر نے ان کے دائیں کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا کہ اب آپ اٹھ چلیں۔ مولانا نے صرف جواباً نفی میں سر ہلایا۔ پندرہ بیس منٹ اور گزرے تو حکیم قرشی صاحب نے ان کے بائیں کان میں وہی بات دہرائی تو مولانا نے پھر اپنا سر نفی میں ہلا دیا۔ وہ دونوں بزرگ خاموش ہو گئے۔ مولانا نہایت مزے سے مشاعرہ سن رہے تھے اور اچھے شعروں پر داد بھی دے رہے تھے۔ عدم نے ایک قطعہ پڑھا۔ میکدے کی شراب ناقص ہے واعظ کم نظر نے پی ہو گی! حوض کوثر میں جو چھلکتی ہےوہ خدا نے کشید کی ہو گی تو مولانا کھلکھلا کرہنسے، ان کے بھائی راجہ حیدر نے مولانا کے خوشگوار موڈ سے فائدہ اٹھانا چاہا اور قریب آ کر ان کے کان میں آہستہ سے کہا ”کافی دیر ہو چکی ہے اب آپ گھر چلیں اور آرام کریں“ مولانا کا خوشگوار موڈ فوراً ناگواری میں بدل گیا اور انہوں نے نفی میں سر ہلا نے کے ساتھ ساتھ ذرا تلخی سے بھی کہہ دیا کہ ”نہیں“۔

راجہ غلام حیدر خاموش ہو گئے اور حکیم محمد حسن قرشی بھی کچھ نہ بولے۔ مگر ان دونوں کو ےہ معلوم نہ تھا کہ مشاعرہ شاعر کے لیے زبردست ٹانک ہوتا ہے اور اس کی طبیعت سنورتی ہے۔ تین گھنٹے تک مشاعرہ جاری رہا۔ آخر میں مولانا نے چند شعر ایسی گھن گرج کے ساتھ سنائے کہ ان کی جوانی کی یاد تازہ ہو گئی۔ آج تک میرے ذہن میں وہ چند شعر محفوظ ہیں۔ ہاں اے عرب کے جوش میں ڈوبے ہوئے جنوں اٹھ اور عجم کی عقل کی بستی اجاڑ دے عبرانیوں کو ایک رگڑ میں ر گید ڈال نصرانیوں کو ایک پکڑ میں پچھاڑ دے تہذیبِ نو کے منہ پر وہ تھپڑ رسید کر جو اس حرامزادی کا حلیہ بگاڑ دے ہندوستان میں کفر کا پرچم بلند ہے جھنڈا یہاں جلال محمد کا گاڑ دے مولانا ایک بہت باکمال شخصیت تھے، وہ شاعر، انشا پرداز، مترجم، خطیب اور ایک زبردست عوامی لیڈر تھے۔ انہوں نے علی گڑھ سے اس زمانے میں بی اے کیا، جس زمانے میں بی اے کر لینا اعلیٰ سرکاری ملازمت کے لئے ایک یقینی ذریعہ ہوا کرتا تھا، اور اگر وہ چاہتے تو کسی سرکاری ملازمت میں شامل ہو کر اعلیٰ سے اعلیٰ عہدے پر پہنچ سکتے تھے۔ لیکن انگریز کی حکومت میں اعلیٰ ملازمت ان کی نگاہ میں ایک ادنیٰ مقصد تھا ۔ انہوں نے نہایت باوقار انداز میں ملازمت بھی کی لیکن ملازمت کو اپنا مستقل وسیلہ زندگی نہ بنایا۔ ملازمت سے رشتہ توڑ کر انہوں نے صحافت کو اپنایا۔ ان کے والد گرامی کرم آباد سے ایک ہفت روزہ اخبار ”زمیندار“ نکالتے تھے، جس کے نام ہی سے ظاہر ہے کہ وہ کاشتکاروں اور زمینداروں کی ترجمانی کے فرائض انجام دیتا تھا۔ مولانا ظفر علی خان ا س کی ادارت سنبھالتے ہی اسے لاہور لے آئے اور جلد ہی اسے روزنامے میں بدل دیا۔ چنانچہ ”زمیندار“ مسلمانان برصغیر کا سیاسی ترجمان بن گیا، اور تھوڑے ہی عرصے میں اسے ایسی مقبولیت حاصل ہوئی کہ پورے برصغیر میں مسلمانوں کا مقتدر ترین اور معتمد ترین اخبار بن گیا۔ ”زمیندار“ کے اس عروج کے بارے میں مولانا محمد علی جوہر نے 1912ءمیں لکھا۔ ”زمیندار“ اس لئے عروج کو پہنچاکہ ایک ایسے شخص نے اس کی ادارت سنبھالی جو قابل ہے ۔ علی گڑھ کا گریجوایٹ ہے۔ ہندوستان میں ایک سے زیادہ صوبوں میں نظم و نسق کا تجربہ رکھتا ہے۔ جدید تمدن اور سیاست سے آگاہ ہے، انگریزی کی اعلیٰ قابلیت کا حامل ہے، اردو نثر میں ایک درخشاں اسلوب کا مالک ہے اور شعر و شاعری پر اس کو کامل عبور ہے۔ ایسے جامع الصفات اس سے پہلے اس پیشے میں داخل نہےں ہوئے“۔

علامہ اقبال نے مولا ظفر علی خاں کے قلم کا ذکر کرتے ہوئے کہا۔ ”ظفر علی خان کے قلم میں مصطفےٰ کمال کی تلوا ر کا بانکپن ہے“ پروفیسر آل احمد سرور کی رائے میں ”ظفر علی خان اگر سیاست میں نہ آتے تو دوسرے اقبال ہوتے“ مولانا ظفر علی خان ایک راسخ العقیدہ اور وسیع المشرب مسلمان تھے۔ مسلک کے اعتبار سے وہ اہل سنت والجماعت تھے اور اپنے اس مسلک کا اعلان بھی کرتے تھے۔ مثلاً ہیں کرنیں ایک ہی شمع کی بوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓوعلیؓ ہم مرتبہ ہیں یاران نبی کچھ فرق نہیں ان چاروں میں مگر اخوت بین المسلمین کے زبردست علم بردار تھے مثلاً ایک محفل میلاد میں انہوں نے مولانا ابوالکلام آزاد اور سررضا علی کو باہم دیکھا تو فی البدیہہ ارشاد فرمایا۔ کیا صرف شیعوں کے ہیں مشکل کشا علیؓ ہر رن میں سنیوں کا بھی نعرہ ہے یا علیؓ جو دیدہ ور ہیں خاک در بو تراب میں ان میں ابو الکلام ہوں یا سر رضا علیؓ اسی طرح ان کے ہاں کئی اشعار حب علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بازوئے خیبر شکن کی تجھ کو قسم کہ ناز مجھ کو بھی ہے اپنی بو ترابی پر اب بھی چمک رہا ہے حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ و علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام اور خاک اڑ رہی ہے یزید و زیاد کی

مولانا نے سیاسی موضوعات پر بھی بہت کچھ لکھا ہے بلکہ اتنا کچھ لکھا ہے کہ کسی اور شاعر نے اتنا نہیں لکھا، مگر ان کا قلم گلزار نعت و منقبت میں جو پھول کھلاتا تھا ان کا جواب نہیں۔ ان کی اکثر نعتیں ایسی ہیں کہ بے روک ٹوک پڑھنے اور سننے والوں کے دلوں میں اتر جاتی ہیں مثلاً دل جس سے زندہ ہے وہ تمنا تمہی تو ہو ہم جس میں بس رہے ہیں وہ دنیا تمہی تو ہو سب کچھ تمہارے واسطے پیدا کیا گیا سب غایتوں کی غایت اولیٰ تمہی تو ہو جو ماسوا کی حد سے بھی آگے گزر گیا وہ رہ نورد جادہ اسریٰ تمہی تو ہو گرتے ہوﺅں کو تھام لیا جس کے ہاتھ نے اے تاجدار یثرب و بطحا تمہی تو ہو مولانا کی زندگی طویل سیاسی جدوجہد کی زندگی تھی۔ ان کے دل میں سیاسی آزادی کاجذبہ ایسا کوٹ کر بھرا ہوا تھا کہ انہوں نے آرام اور خوش حالی کی زندگی کوتج کر آزادی کے لئے جدوجہد کو اپنا طرہ امتیازبنا لیا۔ ان کی سیاسی جدوجہد دوگونہ تھی ”ٹام راج“ ”رام راج“ کے خلاف۔ ٹام راج کی اصطلاح انہی کی وضع کردہ ہے اور وہ ہندوﺅں کے سیاسی غلبہ کو طنزاً ”رام راج“ کہا کرتے تھے۔ انگریزوں کے خلاف ان کی نظمیں باغیانہ انداز کی تھیں۔ جن کی اشاعت پر اخبار زمیندار کی ضمانتیں بارہا ضبط ہوئیں۔ نظموں کے علاوہ ان کے مقالات بھی باغیانہ ہوتے تھے۔ مثلاً 1914ءمیں وہ لندن گئے اور وہاں پارلیمنٹ کے ممبروں ، اخبارات کے ایڈیٹروں اور دانشوروں سے ملاقاتیں کیں۔ پریس ایکٹ کے خلاف مضامین لکھے بلکہ ایک کتاب بھی مرتب کی جو چھپ نہ سکی۔ وہاں سے انہوں نے ایک مقالہ لکھ کر بھیجا جس کا عنوان تھا۔ چار چیز است تحفہ لندن خمر و خنزیر و روزنامہ و زن یہ مقالہ اخبار زمیندار میں چھپا تو گورنر کو سخت غصہ آیا اور اس نے ”زمیندار“ کے خلاف فوری کارروائی کا حکم دیا۔ دس ہزار روپے کی ضمانت ضبط ہو گئی، چھاپہ خانہ ضبط ہو گیا اور مزید دس ہزار روپے کی ضمانت طلب کی گئی ۔ اس زمانے میں دس ہزار روپے مہیا کرنا آج کل دس لاکھ روپے مہیا کرنے کے برابر ہے۔

مولانا نے ہندو کانگریس اور نام نہاد سبھا کے خلاف بھی سخت جدوجہد کی۔ مختلف مواقع پر ان کے قلم سے ایسے ایسے اشعار ٹپکتے تھے، جو بر صغیر کے طول و عرض میں زبان زد خاص و عام ہو جاتے تھے مثلاً ہندو مہاسبھا کے صدر وی ڈی سا ورکر اور ہندو کانگریس کے سربراہ گاندھی کے بارے میں لکھتے ہیں: بھارت کی بلائیں دوہی تو ہیں اک ساور کر اک گاندھی ہے اک جھوٹ کا چلتا چکر ہے، اک کفر کی اٹھتی آندھی ہے اسی طرح انہوں نے ایک بار شدھی کی تحریک کے خلاف ایک زور دار نظم ”دھر رگڑا“ کے عنوان سے لکھی، جس کا مطلع یوں تھا اک مست الست قلندر نے جب کفر کے چیلوں کو دھرر گڑا پہلے تو رگڑی ناک، پھر پاﺅں پڑے اور سر رگڑا اورآخری شعر اس طرح تھا یہ رگڑے جھگڑے جاری رہے یوں ہی دیس دواروں میں تو جان لو ماتھا بھارت نے اسلام کی چوکھٹ پر رگڑا اس نظم کی اشاعت پر بھی زمیندار کی ضمانت ضبط ہو گئی۔ انگریزوں اور ہندوﺅں کے خلاف بہت سی نظمیں ان کی کلیات ”بہارستان“ ”نگارستان“ ”چمنستان“ وغیرہ میں موجود ہیں۔ ان کی مخالفت صرف اس بنا پر تھی کہ یہ دونوں گروہ مسلمان ہند بلکہ مسلمانان عالم کے دشمن تھے۔ انگریز دشمنی کا یہ عالم تھا کہ میں نے 1956میں مولانا سے ایک انٹرویو میں یہ سوال کیا کہ مولانا آپ کی تاریخ پیدائش کیا ہے تو مولانا نے جواباً فرمایا۔ عیسوی سن اور تاریخ کی تو نے ہم کبھی پروا ہی نہیں کی۔ البتہ ہجری سنہ پیدائش 1290ھ تھا اور مےرا نام بلکہ میرے بھائی بہنوں کے نام بھی تاریخی نام ہیں۔ میں نے ظفر علی کے اعداد شمار کئے تو وہ 1290ھ تھے۔1290ھ کا سال عیسوی کے مطابق 1873ءتھا اور عیسوی تقویم کے مطابق مولانا کی تاریخ وفات 27نومبر 1956ءہے۔ گویا اس حساب سے انہوں نے تراسی سال کی عمر پائی۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ علیین کے مقام پر سرفراز فرمائے۔ آمین!