گجر دم ملت بیضا سے پوچھا آج ہاتف نے کہ چھوڑیں گے خداوندان مغرب اپنی خو کب تک ملوکیت کے پیراہن کی رنگینی کو مشرق میں رہے گی میرے خون نارواں کی جستجو کب تک شراب خانہ ساز آئے گی کب بطحا کی بھٹی سے رہیں گے فارغ اس کے دور سے جام و سبو کب تک قبائے سلطنت قامت پہ کس دن راس آئے گی کرے گا اس کو پاکستان کا درزی رفو کب تک ندا آئی کہ مقصد تک پہنچ سکتی نہیں ملت نہ سیکھے گی وہ کرنا آب خنجر سے وضو جب تک نہ آئے گا خدا کی راہ میں جب تک اسے مرنا بہائے گی نہ اس رستہ میں وہ اپنا لہو جب تک مندرجہ بالا نظم اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور کے ایسوسی ایٹ پروفیسرڈاکٹر زاہد منیر عامر نے ایک تحقیقی منصوبے کے دوران دریافت کی۔ یہ نظم مولانا کے کسی مجموعے میں موجود نہیں۔ انہوں نے یہ نظم مسلم لیگ کے سیکرٹری سید شمس الحسن کو ایک خط کے ساتھ بھجوائی تھی، جس میں انہوں نے 1941ءکی علی گڑھ مسلم لیگ کانفرنس میں شرکت نہ کر سکنے پر افسوس کا اظہار کیا اور اپنی غیر حاضری کی تلافی کے طور پر یہ نظم بھجوائی۔ تا کہ وہ اس نظم کو کانفرنس میں کسی موزوں موقع پر مولانا ظفر علی خان کے پےغام کے طور پر پڑھ سکیں۔ اس نظم کے ساتھ مولانا ظفر علی خان نے سرپوش مراسلے کے طور پر شمس الحسن کے نام مختصر خط لکھا جس پر دہلی اور یکم نومبر 1941ءدرج ہے، جس سے اس نظم کے مقام تخلیق اور زمانہ کا علم ہو جاتا ہے۔ ذیل میں یہ تاریخی تحریر نقل کی جا رہی ہے اور ان سطور کے ساتھ مولانا ظفر علی خان کا یہ غیر مطبوعہ خط اور قائد اعظم کے بارے میں ہماری قومی تاریخ کی اس اہم شخصیت کے منظوم خےالات کا عکس بھی شائع کیا جا رہاہے۔ دہلی یکم نومبر 1941ئ مکرمی و مخدوم السلام علیکم:

میں نے بہت کوشش کی کہ علی گڑھ پہنچ کر مسلم لیگ کانفرنس میں شرکت کی عزت حاصل کروں لیکن طبیعت کی ناسازی سنگ راہ ہو گئی۔ اس کی تلافی کے لئے نظم ذےل حاضر ہے۔ کسی موزوں موقعہ پر اسے کانفرنس میں میری طرف سے پڑھ کر سنا دیجئے۔