1999ء کا واقعہ ہے کہ میں نے میٹرک کے امتحان میں کامیاب ہونے کے بعد مزید تعلیم کے حصول کی غرض سے لاہور کے لئے رخت سفر باندھا تو بھائی صاحب مرحوم نے فرمایا کہ لاہور کی غےر معمولی دلچسپیوں کے علاوہ وہاں تم ایک خاص دوست سے مل سکو گے۔ میں حیران ہوا کہ لاہور میں میرا کون دوست ہے۔ بھائی صاحب نے وضاحت کرتے ہوئے فرمایا، وہاں مولانا ظفر علی خاں سے شرف ملاقات حاصل کر سکو گے جن کے اخبار زمیندار کو تم اس ذوق شوق سے پڑھتے ہو اور میں ہی کیا اس زمانے میں ہر بچہ، جوان، بوڑھا زمیندار کا شیفتہ تھا۔ طرابلس اور بلقان میں جنگ کی وجہ سے مسلمانوں کے جذبات بھڑکے ہوئے تھے۔ مولانا ظفر علی خاں کے آتش ریز مضامین اور شعلہ بار نظموں میں لوگ اپنی تسکین کا سامان پاتے تھے۔ برطانیہ نے طرابلس پر اٹلی کے قبضے کو تسلیم کرنے میں سب سے پہل کی اور بلقان پر مسٹر اسکوئتھ وزیر اعظم اور مسٹر ایڈوارڈ گرے وزیر خارجہ نے بلقانی ریاستوں کی فتح میں باب مسیحیت کے افتتاح کا خواب دیکھا۔ مولانا ظفر علی خاں نے اپنی ہنگامہ خیز تحریروں اور ولولہ انگیز تقریروں میں اسکوئتھ اور گرے کے بیانات کی خوب دھجیاں اڑائیں۔

میں جب لاہورپہنچا تو اسے مولانا ظفر علی خاں کی شعلہ نوائی سے آتش بداماں پایا۔ ہر روز موچی دروازے کے باغ میں پندرہ بیس ہزار کا مجمع ہوتا اور اس میں گھنٹوں مولانا کی سحر بےانی سے مجمع مسحور ہوتا۔ جس وقت وہ طرابلس و بلقان میں اٹلی اور بلقانی ریاستوں (بلغاریہ ، سربیا) کے مظالم بیان کرتے تو مجمع غیظ و غضب سے شعلہ جوالہ بن جاتا اور اطالیہ و بلغاریہ کے خلاف اس قدر زور سے نعرے لگاتا کہ گورنمنٹ ہاﺅس اور پرستار ان برطانیہ کی کوٹھیوں میں لرزہ طاری ہو جاتا۔ طرابلس اس وقت ترک حکومت کے ماتحت تھا۔ موچی دروازہ کے جلسوں میں مولانا ظفر علی خاں اکثر خود تقریر کرتے۔ کبھی کبھی باہر سے دوسرے لیڈروں کو بھی بلا لیتے۔ چنانچہ ایک جلسے میں مولانا محمد علی اور ایک دوسرے جلسے میں خواجہ غلام الثقلین شریک ہوئے۔ ایک جلسے میں علامہ اقبال تشریف لائے اور انہوں نے اپنی مشہور نظم ”جواب شکوہ“ پڑھی۔ علامہ اقبال کے نظم پڑھنے سے پہلے مولانا ظفر علی خاں نے فرمایا کہ ہم لوگ بھی نظمیں کہتے ہیں مگر ڈاکٹر اقبال کی اور ہی بات ہے۔ وہ کبھی کبھی نظم کہتے ہیں مگر اس میں جبریل کی پرواز کا رنگ ہوتا ہے۔ اس زمانے میں ڈاکٹر صاحب نے مشہور نظم فاطمہ بنت عبداللہ لکھی جس کا پہلا شعر ہے۔ فاطمہ تو آبروئے ملتِ مرحوم ہے ذرہ ذرہ تیری مشتِ خاک کا معصوم ہے علاوہ ازیں شاہی مسجدمیں ایک نظم خون شہدا پڑھی جس سے مسجد میں ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔ پنجاب کی حکومت مولانا ظفر علی خان کی ان سرگرمیوں پر بہت مضطرب تھی وہ اس سے کچھ عرصہ پہلے لالہ راجپت رائے، صوفی پرشاد، چودھری شہاب الدین، لالہ بانکے دیال، لالہ دینا ناتھ اور سردار اجیت سنگھ کی سرگرمیوں کی وجہ سے پریشان رہ چکی تھی۔ لالہ راجپت رائے نے پنجاب میں تحریک آزادی شروع کر رکھی تھی۔ وہ ہندوستان کی تحریک آزادی کے ایک اہم ستون تھے۔ اس وقت کانگریس کی تحریک بنگال اور مہاراشٹر میں تشدد کا رنگ اختیار کر چکی تھی ۔ مہاراشٹر میں لوکمانےہ تلک کی ہنگامہ آرائی کی وجہ سے چند انگریز قتل ہو چکے تھے۔ بنگال میں انارکسٹوں کی وجہ سے انگریزوں اور ان کے حامیوں کا قتل جاری تھا۔ اس وقت اس تحریک کے ارکان ثلاثہ بال، پال اور لال (بال گنگا دھر تلک، بین چندرپال، لالہ لاجپت رائے) سمجھے جاتے تھے اور حکومت انتنوں کے خلاف اقدام کرنا چاہتی تھی۔ چنانچہ تلک چھ سال کے لیے جیل بھیج دیے گئے، پال بھی گرفتار کر لیے گئے، لالہ لاجپت رائے کچھ بچ کر چلتے تھے مگر آخر ان کی باری آ ہی گئی۔ 1904ءمیں نہری علاقوں کے لیے حکومت پنجاب نے ایکٹ نافذ کیا جس میں زمینداروں پر سخت پابندیاں عائد کی گئی تھیں اس اےکٹ کے خلاف تمام صوبہ پنجاب میں شورش پیدا ہو گئی۔ لالہ بانکے دیال نے ایک نظم ہار (زیاد) تحریر کی جس کا ٹیپ کا مصرع تھا۔ ”پگڑی سنبھال جٹا پگڑی سنبھال او“ اس کو خود وہ دیہاتی طرز میں رقص کرتے ہوئے پڑھتے تھے۔ بعض کا خیال ہے کہ یہ نظم چودھری شہاب الدین مرحوم (سابق سپےکر پنجاب لیجسلیٹو اسمبلی) نے لکھی تھی اس نظم نے زمینداروں پر بجلی کا اثر کیا، ادھر لالہ لاجپت رائے کی تقریروں نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور یہ خطرہ پیدا ہو گیا کہ مسلمان اور سکھ فوجیں متاثر ہو کر بغاوت نہ کر بیٹھیں۔ بالآخر لارڈ کچز کی مداخلت سے یہ قانون ختم ہوا۔ مگر حکومت کو لالہ لاجپت رائے کی ذات سے جو خطرہ پیدا ہو گیا تھا اس کی وجہ سے اس نے انہیں ایک ڈرامائی انداز میں گرفتار کیا اس روز لاہور چھاﺅنی سے بہت سی فوج منگائی گئی اور تمام ناکوں پر اسے تعینات کیا گیا، جگہ جگہ مشین گنوں کی نمائش کی گئی اور ایک سپیشل ٹرین میں لالہ لاجپت رائے کو بٹھا کر مانڈے بھیج دیا گیا جہاں وہ عرصہ تک نظر بند رہے لالہ لاجپت رائے کے رفقا صوفی پرشاد اور سردار اجیت سنگھ روپوش ہو کر ایران چلے گئے اور بعض گرفتار کر لیے گئے۔

اب حکومت کو مولانا ظفر علی خاں کی صورت میں ایک پین اسلامی لیڈر نظر آیا اور وہ خائف تھی کہ پنجاب میں صورت حال نہ بگڑ جائے اس وقت اس اسلامی تحریک کو تین لیڈر چلا رہے تھے، پنجاب میں مولانا ظفر علی خاں، دہلی میں مولانا محمد علی اور کلکتے میں مولانا ابوالکلام آزاد۔ حکومت سب سے زیادہ مولانا ظفر علی خاں سے خائف تھی۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کے سب سے زیادہ محفوظ صوبے کے نظم و نسق میں اختلال پیدا ہو کیونکہ یورپ میں جنگ کے بادل منڈلا رہے تھے اور انگریزوں کو زیادہ تر جہلم اور راولپنڈی کے جوانوں پر بھروسہ تھا۔ یورپ میں قےصر جرمنی نے اسکوائتھ اور پوپ کے مسیحی اعلانات کے جواب میں ایک جنگ جویانہ اعلان میں کہا تھا کہ ترکوں کی مخالف قوتوں کو جاننا چاہیے کہ انہیں جرمنی کے قوائے عسکری سے ٹکرانا پڑے گا۔ مولانا ظفر علی خاںجب لاہور آئے اور زمیندار قبول عام حاصل کرنے لگا تو یہاں کے پرانے اخبارات نے ان کے خلاف لکھنا شروع کر دیا ادھر لاہور کے سرکار پرستوں میں بھی ان کی تحریروں سے ہیجان پیدا ہو گیا۔ مولانا ظفر علی خاں چومکھی لڑتے رہے۔ سروں اور خان بہادروں نے شور مچایا کہ زمیندار مسلمانوں میں بغاوت کا بیج بو رہا ہے۔ مولانا نے جواب میں تحریر کیا

جب سے ہم میں آنریبل اور سر پیدا ہوئے سوئے فتنے جاگ اٹھے ہیں اور شر پیدا ہوئے اور آخر میں حاسدانِ تیرہ باطن کو جلانے کے لیے تجھ میں اے پنجاب اقبال و ظفر پیدا ہوئے ظفر علی خاں کی تربیت میں ان کے والد کی اسلام دوستی اور حریت پسندی کو بڑا دخل تھا اور علی گڑھ کی فضا نے بھی ان کو متاثر کیا۔ علی گڑھ کا اس زمانے میں عام رحجان ہندوﺅں کے اتباع میں یہ تھا کہ اس کے ذہین اور قابل طلباءفارغ ہونے کے بعد ملازمت کے سنہری بت کے پرستار بن جائیں مگر علی گڑھ ہی کی فضا نے کچھ ایسے نوجوان بھی پیدا کئے جنہوں نے اطاعت و تسلیم کی راہ قدیم کی پروا نہ کی، اس میں حسرت موہانی، ظفر علی خاں، اور محمد علی جوہر پیش پیش تھے اور در حقیقت ان نوجوانوں کی عمر بھر کی جدوجہد نے برطانوی استعمار کے مستحکم قصر کو متزلزل کر دیا۔ مولانا ظفر علی خاں جہاں سر سید کی علمی تحریک سے وابستہ تھے وہاں وہ سید جمال الدین افغانی کے سیاسی عقائد و خیالات سے بھی بے حد متاثر ہوئے۔