کون نہیں جانتا کہ مولانا ظفر علی خاں نے اردو صحافت کی نشاة ثانیہ میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ عوام میں اخبار بینی کا ذوق پیدا کےا اور صحافت کے ذریعے سے سامراج کے خلاف عوامی جدوجہد کے لیے زمین تیار کی۔ یہ درست ہے کہ ان کے صحافتی جوہر ”زمیندار“ اور ”ستارہ صبح“ میں چمکے۔ لیکن ان کی صحافتی زندگی کا آغاز کیوں کر ہوا؟ اس بارے میں مولانا ظفر علی خاں کے سوانح نگار اول تو خاموش ہیں اور اگر انہوں نے کچھ لکھا ہے تو وہ بے حد مبہم ہے۔

جب انےسویں صدی دم توڑ رہی تھی ظفر علی خاں کا کل ادب کی آرائش میں مگن تھے۔ حیدر آباد دکن کے سازگار علمی ماحول میں انہوں نے دارالترجمہ کی ملازمت کے دوران پہلے شبلی کی معرکتہ الآرا تصنیف ”الفاروق“ کو انگریزی میں منتقل کیا اور اسی زبان میں ”لائف آف سر سید احمد خاں“ کے نام سے ایک کتابچہ لکھا۔ پھر رایڈر ہیگرڈ، رڈیارڈ کپلنگ اور ایڈگر ایلن پو کے شاہکاروں کو اردو میں ترجمہ کر کے اہل علم سے خراج عقیدت حاصل کیا۔ پھر لارڈ کرزن کی کتاب ”گارڈن آف پرشیا“ کو ”خیابانِ فارس“ کے روپ میں پیش کیا۔ اور ”جنگ روس و جاپان“ کے نام سے اےک طبعزاد ڈراما لکھ کر ثابت کیا کہ سیاست بھی اردو ڈرامے کا موضوع بن سکتی ہے۔

یہ وہ زمانہ تھا جب لاہور سے سر شیخ عبدالقادر کی ادارت میں ”مخزن“ جاری تھا۔ لکھنو سے عبدالحلیم شرر ”دلگداز“ نکالتے تھے۔ علی گڑھ سے حسرت موہانی کا ”اردوئے معلی“ جاری تھا اور حیدر آباد دکن میں رسالہ ”حسن“ بند ہو جانے سے ادبی صحافت کی بساط الٹ چکی تھی۔ 1903ء میں مولانا ظفر علی خاں نے وہیں سے ایک چھوٹا سا ماہ نامہ ”افسانہ“ کے نام سے جاری کیا۔ جس مےں رینلڈز کا مشہور ناول ”مسٹریز آف لندن“ ”فسانہ لندن“ کے نام سے بالاقساط چھپتا تھا۔ بہر حال ایک سال کے اندر اندر مولانا کو احساس ہوا کہ وہ اس سے بہت بہتر کام کر سکتے ہیں۔ چناں چہ 1904ءمیں انہوں نے ”دکن ریویو“ کے نام سے ایک علمی و ادبی ماہنامہ جاری کیا۔ جس نے بہت جلد برعظیم کے نامور ادباءاور شعراءکی توجہ اپنی طرف کھینچ لی۔ جو لوگ اس میں باقاعدہ لکھتے تھے ان میں نواب نصیر حسین خیال، شبلی نعمانی، اکبر الہ آبادی، مولوی عبدالحق (جو بعد میں بابائے اردو کے نام سے مشہور ہوئے)، رضا علی وحشت، سید علی حیدر طباطبائی، سرکشن پرشاد شاد، مرزا محمد ہادی عزیز، سید فضل حق، آزاد عظیم آبادی، سید کاظم حسین شیفتہ، نواب عزیز جنگ بہادر، مولوی منظور حسن اور مولوی معشوق حسین خاں شامل تھے۔ دو سال تک یہ رسالہ جاری رہا۔ پھر حیدر آباد کی ملازمت اچانک ختم ہو گئی تو مولانا بمبئی چلے گئے اور میر محفوظ علی بدایونی کی رفاقت میں ایک تجارتی ادارہ قائم کےا جو غیر ممالک سے ہاتھی دانت کا سامان اور ریشم درآمد کرتا تھا۔ اس سلسلے میں مولانا سومالی لینڈ گئے اور سات مہینے کے بعد لوٹے۔ یہ تجارت مفید نہ ثابت ہوئی بلکہ خسارہ ہوا، چناں چہ انہوں نے تجارت چھوڑی اور ”دکن ریویو“ بمبئی سے جاری کر لیا۔ دو تین پرچے نکلے تھے کہ دکن میں حالات پھر سازگار ہو گئے اور مولانا پھر وہیں چلے گئے۔ سرکاری ملازمت پھر مل گئی اور مولانا نے ”دکن ریویو“ کا ”سلسلہ جدید“ شروع کیا اور یہ رسالہ پھر اپنے پرانے ٹھاٹھ سے نکلنے لگا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس سے آمدنی تو درکنار، خاصا خسارہ ہوتا تھا۔ چوں کہ ادب کی خدمت کا شوق تھا اس لیے نقصان برداشت کرتے چلے گئے۔ یہی نہیں نقصان کے باوجود مقالہ نگاروں سے معاوضے کا وعدہ کیا۔ چناں چہ لکھتے ہیں

اگرچہ دکن ریویو کے علمی سرپرستوں کی نوازشات کا سلسلہ اس ارادت کی طرح، جو ہمیں ان کی جناب میں ہے ، لامتناہی ہے پھر بھی اس عرق ریزی اور جاں کا ہی کا اندازہ کر کے جو ایک اچھے مضمون کے لکھنے میں صرف کرنی پڑتی ہے، ہم نہیں چاہتے کہ یار شاطر ہونے کے بجائے ہم اپنے تقاضوں کے باعث ان کے لیے بار خاطر ہوں۔ پس آیندہ سے دکن ریویو کے قلمی معاو نین کو یہ اطلاع دینا ہم اپنا فرض خیال کرتے ہیں کہ جو مضمون اس کے کالموں میں شائع ہو گا اس کا معاوضہ بجائے خالی خولی زبانی شکریہ کے نقدی میں دیا جائے گا ۔ (فروری 1909ئ

لیکن اگلے مہینے حالات نے ایک ایسی کروٹ لی کہ مولانا کے سارے عزائم مٹی میں مل گئے۔ آپ نے رسالے میں اعلان کیا کہ میں اس کی ادارت اور ملکیت سے الگ ہوتا ہوں۔ آیندہ مالک و مدیر مولوی سےد مودود احمد قادری ہوں گے اور وہ ”دکن ریویو“ کی قدیم پالےسی کو جاری رکھیں گے۔ علیحدگی کے سلسلے میں آپ نے جو طویل مضمون لکھا اس کے چند اقتباس ملاحظہ ہوں:

”دکن ریویو کو معرض وجود میں آئے ہوئے کچھ اوپر پانچ سال ہوئے ہیں اور جو کچھ بری بھلی خدمت اردو زبان کی اس سے ہو سکی، اس نے انجام دی، شکر ہے کہ ملک نے اس کی کوششوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ اس عرصہ میں اس کو طرح طرح کی مشکلات اور عوارض کا سامنا ہوا۔ کبھی یہ تاخیر اشاعت کے مرض میں مبتلا ہوا کبھی اس نے چار چار پانچ پانچ نمبر ایک ساتھ نکالے۔ ایک دفعہ ایسا بھی اتفاق ہوا کہ بوجہ ہماری علالت اور ہندوستان سے باہر چلے جانے کے ہمیں اس کی اشاعت سات آٹھ مہینے تک ملتوی کر دینی پڑی۔ لیکن باوجود ان تمام اسقام اور عیوب اور لغزشوں کے اس کے قدر دان ناظرین نے اسے اپنا مطمح نظر بنائے رکھا۔ ہمیں بھی ان تمام خرابیوں کے باوجود یہ یقین تھا کہ ”دکن ریویو“ ایک زندہ اور ہمیشہ سر سبز رہنے والی تحریک ہے جو کبھی نہ یں مٹ سکتی اور جو قبر تک ہمارے ساتھ جائے گی۔ اس لیے ہم نے ان تمام نقصانات کو جو ہمیں اس کی وجہ سے علی الاتصال برداشت کرنے پڑے، ماتھے پر بل لائے بغیر اٹھا یائے۔ ہم نے اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ کاٹا لیکن اس کا رخ بھرا۔ آئینہ میں ہمیں اپنی پریشان اور متوحش صورت ہر روز دیکھنی پڑی لیکن یہ ہم نے کبھی گوارا نہ کیا کہ اس کے سرورق کی زیبائش اور رعنائی اس تصویر کے نہ ہونے سے کم ہو جائے جو ہر پرچے میں ناظرین کو ہدیتہ پیش کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ کس لیے تھا؟ محض اس لیے کہ ہمیں اس کے ساتھ محبت تھی اور ہم نے عہد کر لیا تھا کہ خواہ کچھ بھی ہو، اسے اس شان کے ساتھ برابر نکالے جائیں گے۔ لیکن عرفت ربی بفسخ العزائم ہم نہایت دلی رنج کے ساتھ بلا کسی مزید تمہےد کے ناظرین کو یہ اندوہ ناک خبر سناتے ہیں کہ یہ پرچہ دکن ر یویو کا آخری نمبر ہے جس کی ایڈیٹری کی خدمت ہم انجام دیتے ہیں۔ جس چیز نے ہمیں ”دکن ریو یو“ سے تعلق ایڈیٹری قطع کرنے پر مجبور کیا ہے وہ سرمایہ کی کمی نہیں ہے بلکہ وقت کی کمی ہے“ (مارچ 1909ئ) اس کے بعد مولانا نے بیان کےا کہ پہلے سرکاری مشاغل ایسے تھے کہ بہت وقت مل جاتا تھا۔ دوسرے ”جسمانی اور دماغی توانائی کا وفور“ مددگار تھا۔ اب ایک طرف سرکاری خدمت کی نوعیت ایسی ہو گئی ہے کہ وقت نہیں ملے گا۔ دوسرے اب وہ ”شگفتہ صحت“ باقی نہیں رہی بلکہ زندگی ”مضمحل اور پژمردہ“ ہے۔ اصل وجوہ وہ نہیں تھیں جو مولانا نے بیان کیں۔ اصل وجوہ کے بیان میں مصالح حائل تھے۔ حقیقت یہ تھی کہ دکن کی محلاتی سیاست نے ایک ایسا رخ پلٹاکہ مولانا کو معلوم ہو گیا کہ وہ بہت جلد نکالے جائیں گے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ رقص و سرور کی ایک محفل میں ان سے کہا گےا کہ وہ فن کاروں کا شکریہ ادا کریں۔ چونکہ وہ اس ”ثقافتی شو“ کو شعایر اسلامی کے منافی سمجھتے تھے اس لیے انہوں نے اپنی روایتی بے باکی سے کام لےتے ہوئے سر محفل اس کی مذمت کر ڈالی۔ دوسرے کچھ بڑے لوگوں نے انگریز ریذیڈنٹ کے کان میں یہ بات ڈالی کہ مولانا ظفر علی خاں سید جمال الدین افغانی کی تحریک سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ ایسی سازش میں مصروف ہیں جس کا مقصد یہ ہے کہ میر محبوب علی خاں نظام دکن کو گدی سے اتار کر میر عثمان علی خاں کو بٹھا دیا جائے اور ریاست انگریزوں سے ناتا توڑلے۔ چناں چہ مولانا زیر عتاب آگئے اور ایک دن بارگاہ خسروی سے اچانک حکم صادر ہوا کہ ظفر علی خاں، عبدالحلیم شرر اور مولوی عزیز مرزا چوبیس گھنٹے کے اندر اندر حدود ریاست سے باہر نکل جائیں۔ چوں کہ مولاناکو حکمران طبقے کی ریشہ دوانیوں کا علم تھا اس لیے انہوں نے یہی مناسب سمجھا کہ ”دکن ریویو“ کسی اور کے سپرد کر دیا جائے تا کہ جب اخراج کا وقت آئے تو کم از کم اس بلا سے تو نجات پا چکے ہوں۔ اگلے مہینے نئی ادارت میں رسالہ نکلا اور نئے مدیر نے مولانا کو خراج عقیدت ادا کرتے ہوئے لکھا

”بجز اس کے کہ ایک مرتب کا نام بدل گیا۔ کوئی اور تغیّر اس میں واقع نہیں ہوا۔ ایک بہت بڑے فرزانہ روزگار کا قول ہے کہ گلاب کے پھول کا نام بدل کر چاہے کوئی دوسرا نام لیا جائے پھر بھی اس کی آنکھوں میں کھب جانے والی خوش رنگی اور اس کی بھےنی بھینی مہک کی مشام افروزی وہی رہے گی جو آگے تھی“ (مئی 1909ئ)

دو تین مہینے بعد ہی اخراج کا حکم آیا اور مولانا کرم آباد کو لوٹے جہاں ان کے والد مولوی سراج الدین احمد بستر مرگ پر تھے اور جب وہ اللہ کو پیارے ہوئے تو ”زمیندار“ کی ادارت مولانا نے خود سنبھالی اور یوں وہ اس راستے پر گامزن ہوئے جس پر کانٹے ہی کانٹے تھے اور سوائے ایک مختصر سے دور کے ساری عمر خار زار سیاست ان کی سرگرمیوں کا مرکز بنا رہا ہے۔

”دکن ریویو“ چھوٹے سائز کے باون صفحات پر مشتمل ہوتا تھا۔ سرورق موٹے کاغذ کا ہوتا تھا اور طباعت اور کتابت معیاری تھی۔ ہر پرچے میں آرٹ پیپر پر ایک عکسی تصویر دی جاتی تھی۔ سلسلہ جدید کی پہلی جلد نومبر 1906ءکو شروع ہوئی اور اکتوبر 1907ء میں ختم ہوئی۔ ان بارہ شماروں کا کل حجم سات سو سولہ صفحات تھا۔ مضامین میں حیات صلاح الدین، دنیا کا خاتمہ خلفاءاور خلافت، تولہ بھر ریڈیم، العالم الاسلامی، زبان عرب اور دنیا پر اس کا اثر، معرفت نفس اور اسلامی خطرہ نمایاں تھے اور جسٹس بدر الدین طیب جی، سر کریم بھائی ابراہیم، امیر حبیب اللہ خاں والئی افغانستان، خلیفتہ المسلمین سلطان عبدالحمید، شاہ ایران اعلیٰ حضرت محمد علی شاہ اور اعلیٰ حضرت مولائی عبدالعزیز کی تقاریر درج کی گئیں۔ نومبر 1907ءکے شمارے میں نواب محسن الملک کی وفات پر مقالے اور مرثیے درج کیے گئے ایک مقالہ مولوی عبدالحق کا بھی شامل ہے۔ مولانا ظفر علی خاں نے ”نوحہ مہدی“ (نواب محسن الملک کا اصل نام مہدی علی تھا) لکھا جس کے چند شعرملاحظہ ہوں۔

اے صدرِ بزمِ قوم کدھر ہے کہاں ہے تو لے چل وہیں ہمیں بھی خدا را جہاں ہے تو دنیا ہماری آنکھوں میں اندھیر ہو گئی جس وقت سے ہماری نظر سے نہاں ہے تو آثار ہیں جہاں میں قیامت کے آشکار

کیونکر نہ ہوں کہ مہدی آخر زماں ہے تو باغ جناں میں آج سماں ہو گا دیدنی سید کے گھر میں جا کے ہوا میہمان ہے تو اس شمارے میں اکبر الہ آبادی کا ترانہ عید درج ہے اور شبلی کی ایک فارسی غزل۔ اگلے شمارے میں مولانا نے بتایا کہ پچھلے بارہ مہینے میں انہیں بارہ سو روپے کا نقصان ہوا۔ آپ نے اس بات پر افسوس ظاہر کیا کہ بہت کم لوگ خریدار بنتے ہیں۔ آخر میں لکھا: ”فسانہ لندن کو البتہ ملک نے بہت پسند کیا اور ہم سے تقاضا کیا جا رہا ہے کہ جس طرح بن پڑے اس کی اشاعت کی فکر کی جائے۔ اس کی صرف ایک تدبیر ہو سکتی ہے اور وہ یہ کہ رسالہ فسانہ پھر جاری کیا جائے۔ لیکن اڑتالیس صفحے کے ہفتہ وار میگزین کی شکل میں جس کے ذریعہ سے فسانہ لندن (رینالڈز کی دلآویز تصنیف مسٹریز آف لندن کا ترجمہ) ایک ہی سال میں ناظرین تک پہنچ جائے اور اس کے بعد کوئی دوسرا دلچسپ قصہ شروع کیا جائے۔ اس میگزین کے چار صفحے علمی خبروں اور دلچسپ باتوں کے لیے علیحدہ کر دیے جائیں“ اس کے بعد چندہ خریداری بتا کر مولانا نے اعلان کیا کہ جس وقت خریداری کے لیے ایک ہزار درخواستیں آجائیں گی رسالہ جاری کر دیا جائے گا غالباً اتنی درخواستیں نہ آئیں اس لیے ”افسانہ“ کا احیاء نہ ہو سکا۔ ہم بتا چکے ہیں کہ مولانا زندہ ناچ گانے کے مخالف تھے لیکن سنیما پر انہیں زیادہ اعتراض نہیں تھا بلکہ چندہ جمع کرنے کے لیے فلم کی نمائش کو مستحسن سمجھتے تھے۔ جب علی گڑھ زنانہ نارمل سکول کے لیے چندے کی ضرورت پڑی تو مولانا اور ان کے احباب نے 12نومبر 1907ءکو رائل بائی سکوپ کمپنی بمبئی کے زیر اہتمام ایک فلم شوکرایا۔ آخر میں انہوں نے ایک تقریر میں تھیٹر میں مسلمانوں کی دل چسپی اور اس کے ذریعے سے چندے کی فراہمی کے بارے میں جو دلچسپ باتیں کیں، ان کا ایک اقتباس یہ ہے

جدید تمدن، جس نے ظاہر پرستی کے فن میں خاص طور سے علم امتیاز بلند کیا ہے جب اپنے نظر فریب اور دل فریب اور دل ربا سازو سامان کو تھیٹروں کی ہوش ربا جلوہ نمائیوںاور متحرک تصویروں کی کرشمہ سنجیوں اور فوٹو گراف (گراموفون) کی سحر سازیوں کی شکل میں لیے ہوئے ہندوستان میں داخل ہوا تو ان نکتہ رس اور رقیقہ سنج طبیعتوں کو، جو درد دل سے مجبور ہو کر کسی نہ کسی طرح اپنے ابنائے وطن کو تنزل سے نکال کر بام رفعت پر پہنچانے کی آرزو مند تھیں، اس میں بھی اپنے ڈھب کی ایک بات سوجھ گئی۔ مسلمانوں کی وارفتہ مزاجی اور عشرت پسندی تو ظاہر ہی ہے۔ پلے ٹکا نہ ہو لیکن یہ بزرگوار بی بی کی ناک کی نتھ بیچ کر تھیٹر کا تماشا دیکھنے کے لےے ٹکٹ ضرور خرےدےں گے۔ گھر مےں کھانے کو نہ ہو لےکن آپ قرض دام لے کر فوٹو گراف ضرور لیں گے۔ اور حضرت ایڈیسن علیہ ما علیہ کے گنج قارون میں زیادہ نہیں تو بہ قدر پچاس ہی روپے کے اضافہ ضرور فرما سکیں گے۔ ان کے اس رحجان طبع کو قوم کے لیے مفید بنانا اگرچہ ٹےڑھی کھیر تھی لیکن چندہ والوں کی جدت طرازیوں کے آگے اس کی ایک پےش نہ گئی

اس محفل میں مولانا نے پردے پر بھی اپنی رائے کا اظہار فرمایا اور چشم تصور سے پردے کی رسم ختم ہونے کے جو نتائج دیکھے وہ بے انتہا خطرناک تھے۔ الحمد للہ کہ وہ نتائج رونما نہیں ہوئے۔ بہر حال یہ دیکھنا دل چسپی سے خالی نہیں کہ آج سے چھپن سال پہلے ایک مصلح قوم نے مستقبل کو کس رنگ میں دیکھا ۔ملاحظہ فرمائیے:

ان باتوں میں بھی اگر تم نے مغرب کی تقلید کی تو کوئی دن جاتا ہے کہ مشرق کے دریاﺅں کی تہ ایسے بہت سے بے زبان اور ناکردہ گناہ بچوں کا گہوارہ بن جائے گی جنہیں ان کی ناخدا ترس ماﺅں نے اپنی شہرت دوشیزگی برقرار رکھنے کے لیے موج آب کے حوالے کر دیا ہو گا۔ مشرق کے شہروں کی محفلوں میں کثرت سے ایسے اشخاص نظر آئیں گے جن کا نام نسبت ابوت کا شرمندہ احسان نہ ہو گا۔ ازدواج اور خانگی تعلقات کو آز