مرکزی لیجیسلٹےو اسمبلی کی ایک نشست پر مولانا بائی الیکشن لڑ رہے تھے۔ امرتسر بھی ان کے حلقہ اسمبلی میں آتا تھا۔ ووٹ آبیانہ اور تعلیم کی بنیاد پر بنتے تھے۔ میں گریجوایٹ تھا۔ لہٰذا میرے ووٹ کا اندراج ہو چکا تھا۔ ووٹ کے علاوہ امرتسر والوں نے 1937ءمیں مسلم لیگ کے لیے لنگر لنگوٹ کس لیے تھے۔ امرتسر میں ایک جلسہ کا اعلان کیا گیا تھا جو چوک فرید میں ہونا تھا اور مولانا نے اس اجتماع سے خطاب کرنا تھا۔ مجھے بھی موقع دیا گیا کہ میں اپنے خیالات کا اظہار کروں۔ میری تقریر کے بعد مولانا نے اپنے گلے کے ہار میرے گلے میں ڈال دئیے۔ یہ میری خوش بختی تھی اور زندگی کی جدوجہد میں آگے بڑھنے کے لیے حوصلہ افزائی بھی۔

میں نے اپنا ووٹ ان کے ایجنٹ کو دے دیا جو مولانا کے حق میں ووٹ اکٹھے کر رہا تھا۔ مولانا بائی الےکشن جیت گئے اور قائد اعظم کی قیادت میں اسمبلی میں نشست حاصل کی۔ کچھ عرصہ کے بعد ہم تین دوستوں نے انہیں شملہ میں جب وہ اسمبلی کی میٹنگ سے فارغ ہوئے مبارکباد پیش کی۔ وہ بے حد مسرور تھے اور قائد اعظم کی بے پناہ تعریف کر رہے تھے۔

صحافت ایک معزز پیشہ ہے۔ اہل قلم اور دانشور طبقہ کا اس سے گہرا تعلق ہے۔ آزاد ملک میں صحافت کا انداز غلام قوم کی صحافت سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔

آزاد ملک میں صحافت نے اپنے حکمرانوں کی اچھائیاں اور برائیاں ظاہرکرنا ہوتی ہیں۔ عوام کے مسائل کو ان کے سامنے پیش کرنا ہوتا ہے۔ آزاد ملک کی صحافت ایک منفعت بخش پیشہ اور بڑے کاروبار کی حیثیت رکھتی ہے۔ جس میں مالی لحاظ سے گھاٹے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

ہماری ہر حکومت ایسے مدیران کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے انہیں انعامات اور بیش بہا مراعات سے نوازتی ہے اور کچھ حضرات اس طرح اکڑے ہوتے ہیں جیسے خدائی ان کے ہاتھ آ گئی ہے۔ ہمارے بیشتر مدیران نے اپنے اپنے بت تراش رکھے ہیں اور ان کی پوجا پاٹ نرالے طریقوں سے کرتے ہیں۔

اگر حکمران انصاف پسند ہوں، اعلیٰ ظرفی کا ثبوت دیں،ملک و قوم کی عزت ان کا مقصد اور خدمت کرنا، ان کی نیت ہو، عوام کی جائز تکالیف اور مصائب کا احساس ہو۔ ان کے ساتھی چور، رہزن، ڈاکو، ملکی دولت کو لوٹنے والے نہ ہوں تو پھر ایسی حکومت کو کسی اخبار کی جائز یا ناجائز تنقید کی ذرہ برابر بھی پروا نہیں ہو گی۔ بلکہ وہ اپنا مشن پوری دیانت اور ایمانداری سے جاری رکھے گی۔ صحافت اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی اور ایسی حکومت عوام کی نظروں میں مقبولیت حاصل کرے گی۔

غلام قوم کی صحافت پر جس پر غیر ملکی حکمرانی کر رہے ہوتے ہیں بالکل مختلف قسم کی ہوتی ہے۔ یہ صحافت خطرات میں گھری ہوتی ہے۔ غیر ملکی آقاﺅں کے مزاج کے خلاف اگر صحافی سے کوئی غلطی سر زد ہوتی ہے تو اس کی سزا بھگتنا پڑتی ہے۔

اس ضمن میں مولانا ظفر علی خان کا ”زمیندار“ اور ان کی اپنی ذات کے ساتھ جو کچھ ہوتا تھا، آج کے مدیران اور مالکان اس قہر اور ظلم کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔

قیدو بند کی صعوبتیں، بغاوت کے مقدمات ، ضبطی پریس، تباہی اور بربادی کی کون سی ایسی مد تھی جس سے انہیں واسطہ نہیں پڑتا تھا۔ وہ آزادی مانگتے تھے۔ دریوزہ گری ان کا منصب نہیں تھا۔ وہ شمشیر برہنہ تھے۔ فرنگی کا جاہ و جلال انہیں مرعوب نہیں کر سکتا تھا۔

سید عطاءاللہ شاہ بخاری دہلی دروازہ لاہور میں تقریر کر رہے تھے۔ ان کی جماعت کے مولانا ظفر علی خاں سے فکری اور سیاسی اختلافات زوروں پر تھے۔ تقریر کے دوران مولانا ظفر علی خاں کے خلاف نعرہ ان کے سننے میں آیا تو انہوں نے تقریر کا رخ بدلتے ہوئے مولانا اختر علی خاں زندہ باد کے نعرے لگوانے شروع کر دئیے (وہ مولانا کے بیٹے تھے اور صحافت سے ان کا بھی تعلق تھا) جلسہ اختتام کو پہنچا۔ ہم بھی سا معین میں سے تھے۔ کچھ دوستوں نے دفتر میں پہنچ کر شاہ جی سے کہا کہ آپ نے یہ کیا کیا اختر علی خاں کے نعرے لگوانے شروع کر دئیے اور ان کی درازی عمر کی دعائیں مانگیں۔ شاہ جی فرمانے لگے ”تو کیا میں بھی اس بدبخت کا ہمنوا بن جاتا جو مولانا ظفر علی خاں کے خلاف نعرہ بازی کر رہا تھا۔

سنئے مولانا ظفر علی خاں بکاﺅ مال نہیں ہے۔ اس کا ایک جملہ جو وہ فرنگی کے خلاف لکھتا ہے، بڑے بڑے عالموں کی برسوں کی عبادت پر گراں ہے۔ وہ جس نے فرنگی کے خلاف اپنا سب کچھ داﺅ پر لگا دیا ، جس کا قلم فرنگی کی ساری دولت نہ خرید سکی ہو، جس کی ہیبت اسے جھکا نہ سکی ہو، کیا میں اس کے خلاف کچھ کہوں یہ ناممکن ہے۔ ظفر علی خان ایک چٹان ہے جو اس سے ٹکرائے گا پاش پاش ہو جائے گا۔ ہاں البتہ اختر علی خاں کی وجہ سے مولانا کو کئی حملے برداشت کرنا پڑتے ہیں اس لیے اخترعلی جتنے غلط کام کرے گا اتنے ہی وہ اس کے عظیم باپ کے کھاتے میں جائیں گے۔ اس لیے اختر علی خاں کی درازی عمر کا نعرہ ہمیں تقویت پہنچانے کا بہانہ بن جاتا ہے۔

امرتسر میں ہمارے محلہ کے باہر والی سڑک بڑی کشادہ تھی۔ اس کے درمیان شیشم کے درخت بھی تھے۔ جن کی چھاﺅں میں ہمارے بزرگ اور ہم سب لوگ مختلف کھےلیں کھےلا کرتے تھے۔ تاش، شطرنج، چوپٹ وغیرہ۔ یہ وہ دور تھا جب انگریز کے خلاف سخت نفرت پیدا ہو چکی تھی۔ میرے دادا جب بھی انہیں ”زمیندار“ اخبار کہیں سے مل جاتا تو وہ شیشم کے درختوں کے نیچے جو چار پائےاں بچھی ہوتی تھیں ان پر محلہ کے پڑھے لکھے ، نیم خواندہ اور ان پڑھ ساتھیوں کو ”زمیندار“ کی خبریں اور مولانا کے اشعار اور ان کے خیالات جو اس اخبار میں ہوتے، پڑھ کر سنایا کرتے تھے اور ہم سب چھوٹے بڑے جو بھی وہاں ہوتے کان لگا کر سنا کرتے تھے۔

یہ انہی دنوں کی بات ہے معلوم ہوا کہ حکومت نے ”زمیندار“ اخبار کا پریس ضبط کر کے مولانا کو نظر بند کر دیا ہے۔ ہمارے دادا کچھ نہ کچھ ضرور ہمیں بتاتے رہتے تھے۔ کہنے لگے کہ اگر جرمانہ کی رقم حکومت کو ادا کر دی جائے تو پریس بحال ہو جائے گا اور مولانا کا اخبار کچھ شرائط کے ساتھ جاری ہو جائے گا۔

اس ضمن میں ہمارے دادا بڑی تندہی کے ساتھ اپنے ساتھیوں اور دوسرے لوگوں سے پیسے اکٹھے کیا کرتے تھے جو وہ ”زمیندار“ اخبار کی مدد کے لیے بھیجا کرتے تھے۔

ہمارے لیے ”زمیندار“ صحیفہ آسمانی سے کم نہ تھا۔ کالج کی زندگی میں ”زمیندار“ کا نوجوان نسل پر بڑا احسان تھا کیونکہ وہ فرنگی کی چالبازیاں اور اس کے ظلم کی داستانوں سے پوری طرح آگاہ رہتی تھی۔