ہندوستان کی صحافتی زندگی میں ”زمیندار“ کا اجراءایک انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ ”زمیندار“ ایک سیاسی اخبار تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس نے اردو زباں و ادب کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ ظفر علی خان نے مدلل تبصرے ادبی رنگ میں لکھے اور سیاسی و صحافتی شاعری کو فروغ دیا۔ جس سے ”زمیندار“ کو اردو ادب میں اہم مقام حاصل ہوا۔ ”زمیندار“میں مولانا کی شاعری نے اردو ادب کے دامن کو وسیع کیا۔ ان کی شاعری مقصدیت، وطنی شعور اور قومی جذبات کی آئینہ دار ہے۔ ان کی شاعری ایک مستند جامع تاریخ ہے جو ہر واقعہ کی بوقلمونی کو اپنے رنگ میں پیش کرتی ہے۔ برصغیر کے افق پر رونما ہونے والے وہ واقعات جنہوں نے ہماری قومی تاریخ پر گہرا اثر ڈالا ظفر علی خاں کی شاعری کے سانچے میں ڈھل گئی۔ مولانا ظفر علی خاں کی شاعری حیات اجتماعی کا ایک پےغام ہے جس کا ہر موضوع ایک ولولہ اور جوش پیدا کرتا ہے۔ وہ قوم کو زوال اور تنزل سے بچانے کے لئے اپنی فکر اور تخلیل کے ستارے توڑ کر لائے اور انہیں اشعار کی لڑیوں میں پرو کر صفحات پر بکھیر دیا۔ اس دور کے سیاسی نشیب و فراز نے ظفر علی خاں کی شاعری میں خطیبانہ رنگ بھر دیا۔ جس کا مقصد صرف اور صرف قومی تھا۔ مغربی تہذیب و تمدن کے خلاف اور سائمن کمیشن کے بارے میں لکھتے ہیں۔ وقت کا ترانہ جکڑے رہو گے کب تک مغرب کے بندھنوں میں کب تک رہے گی تم پہ غیروں کی حکمرانی کیوں ہو کے سر بکف تم گھر سے نہیں نکلتے

بچپن سے سن رہے ہو اسلام کی کہانی انگریز خود تمہارا ایکا کر رہا ہے ہے سائمن کمیشن تائید آسمانی زمیندار 29جنوری 1928ئ جنگ طرابلس میں مسلمانوں پر جو مظالم ڈھائے جا رہے تھے، ان کا اظہار مولانا ان الفاظ میں کرتے ہیں۔ جنگ طرابلس مدعا یہ ہے کہ مٹ جائے مسلمانوں کا نام واسطے اس کے تراشے جا رہے ہیں عذر لنگ جھونک دی اٹلی نے چشم روشن ایماں میں خاک چڑھ گےا آئےنہ انصاف پر یورپ میں زنگ زمیندار 18مارچ ایک اور جگہ مولانا ظفر علی خان مغربیت کے مظالم کا ذکر کرتے ہوئے مسلمانوں کو نصیحت کرتے ہیں۔ نالہ مسلم ساعت وہ آ رہی ہے کہ اسلامیان ہند یورپ کو اپنی آہ سے زیر و زبر کریں

دنیا کو پھر دکھائیں چمک ذوالفقار کی خیبر کو اس کے بل پر نئے سرسے سر کریں زمیندار 25مئی 1927ئ شدھی اور سنگھٹن کی تحریکوں نے مفادات کی شکل اختیار کر لی تو مولانا کی شاعری کی آواز اور بلند ہو گئی اور طنز و مزاح میں مولانا نے ان تحریکوں پر کئی وار کئے جن کی کاٹ بہت گہری تھی شدھی کی آنکھ اور سنگھٹن صدا کل شب یہ اٹھی مالوی جی کی حویلی سے تمہاری آبرو کا بھاﺅ پانی سے بھی سستا ہے گروکل مبتدا ہے اور خبر لاہور ہے اس کی ادھر بجلی چمکتی ہے ادھر بادل برستا ہے پڑا ہیل کاٹا اور ادھر وہ سانپ ڈستا ہے زمیندار 23مئی 1927ئ مولانا ظفر علی خان کی تحریروں نے آزادی وطن کی ہر تحریک پر لبیک کہایہاں تک کہ سائمن کمیشن کا بائیکاٹ کرایا۔ اس پر مولانا کا قلم اور تیز ہو گیا۔نوید امنسر جان سائمن کو ہمارے خروج میںاپنے عروج کا نظر انجام آ گیا صیاد پھانسنے ہمیں آیا تھا جال میں آتے ہی لیکن آپ تہ دام آ گیا برطانیہ سے ہم نے موالات ترک کی تھا ایک پاس حربہ وہی کام آگیا زمیندار 19فروری 1928ئ ”زمیندار“ میں مولانا نے مجلس احرار اور یونےنسٹ پارٹی پر تنقید کرتے ہوئے شدید طنز سے کام لے کر لکھا ہے کون کہتا ہے کہ بیکار ہے لاہور کی لیگ ملک سے بر سر پےکار ہے لاہور کی لیگ جتنے اس خطہ کے ٹوڈی ہیں مبارک ہو انہیں کہ غلامی کی طلبگار ہے لاہور کی لیگ اگر احرار میں شامل ہیں سر آغا خاں بھی تو نمائندہ احرار ہے لاہور کی لیگ زمیندار 11نومبر 1928ئ زمیندار“ نے مسلم لیگی، احراری، نےشنلسٹ، مولوی اور خوشامدیوں پر طنز کے تیر برسائے۔ پبلک سیفٹی بل وہ بم سے ڈرا اور نہ پستول سے ہے جیوٹ بلا کا ہمارا پٹیل معاً سیفٹی بل کو ٹھکرا دیا منڈھے چڑھنے پائی نہ ارون کی بیل تھا اپنی ہی مجلس میں اپنا دیا تھی اپنی ہی بتی اور اپنا ہی تیل زمیندار 15اپریل 1929ئمغربی بجلی اور مشرقی بھونچال گومتی چل کر گئی راوی سے تہذیب فرنگ لکھنو میں لاٹھیاں برسیں جواہر لال پر دیکھئے لاتی ہے دنیا کیوں کر اس ٹکر کی تاب مغربی بجلی گری ہے مشرقی بھونچال پر زمیندار 9دسمبر 1928ئ اردو ادب و صحافت میں ”زمیندار“ کی سیاسی اور طنزیہ شاعری صف اول میں شمار ہوتی ہے مولانا نے سیاسی اضطراب، تحریکات، واقعات شخصیات اور تہواروں کو ضبط تحریر میں لےا اور اشعار کی شکل میں انہیں رعنائی بخشی۔