میرا تعلق اسی سر زمین سے ہے جہاں بابائے صحافت مولانا ظفر علی خاں نے آنکھ کھولی، اپنا بچپن گزار۔ اور نصف صدی سے زائد عرصہ تک عظیم قومی ذمہ داریوں کی انجام دہی کے بعد اسی سر زمین میں آسودہ خاک ہوئے۔ آج مولانا کو ہم سب سے جدا ہوئے چالےس سال ہو چکے ہیں۔ اس عرصے میں ایک نسل جوانی کی سرحدیں عبور کر کے بڑھاپے کی دہلیز پر ہے۔ اس نسل میں ایسے لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہو گی جو مولانا کے افکارو کردار سے مکمل آگاہی رکھتے ہوں بلکہ ایک اچھی خاصی تعداد ان خواتین و حضرات کی ہو گی جو شاید مولانا مرحوم کے نام تک سے بھی واقف نہ ہوں۔ اس میں ان کا کوئی قصور نہیں۔ ہم نے انہیں حضرت مولانا اور دوسرے قومی محسنوں سے روشناس کرانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ جو قومیں اپنے محسنوں کو فراموش کر دیتی ہیں وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بتدریج زندگی کی رعنائیوں سے محروم ہوتی چلی جاتی ہیں اور بالآخر تاریخ کے اوراق میں گم ہو جاتی ہیں۔ آج اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ نئی نسل کو بتایا جائے کہ ہمیں ایک ایسی سپر پاور نے غلام بنا لیا تھا کہ جس کی حکومت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ مولانا ظفر علی خاں نے اس سپر پاور کو ایسے وقت میں للکارا جب اس کا اقتدار نصف الہنار پر تھا اور دنیا کی کسی طاقت میں اس کے مد مقابل آنے کا حوصلہ نہ تھا۔ مولانا نے اپنے باطل شکن قلم، حق گو زبان اور بے باک روزنامہ زمیندار کے ذریعے مسلسل نصف صدی سے زائد عرصہ تک فرنگی سامراج کے خلاف کامیاب جدوجہد کی اور اسے اپنی آنکھوں سے بر صغیر سے رخصت ہوتے دیکھ لیا۔ مولانا کی للکار سے برطانوی حکومت کے ایوانوں میں زلزلہ برپا ہو جایا کرتا تھا۔ آج سے پون صدی قبل برطانوی سامراج کو للکارنا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ مولانا نے ایسے ہی وقت میں فرمایا۔ قسم ہے جذبہ حب ِ وطن کی بے پناہی کی ہمارا دیس غیروں کا غلام اب رہ نہیں سکتا مزید فرمایا زوال اس سلطنت کا ٹل نہیں سکتا ہے ٹالے سے کہ اپنی ہی رعایا سے پڑا ہو جس کو ٹکرانا جب مولانا اپنے افکار اور کردار کے حوالے سے قیدو بند کی آزمائشوں سے گزرے تو انہوں نے فرنگی کی قائم کردہ عدالتوں کے طرز انصاف کا مشاہدہ کیا اور علی الا علان اس کی مذمت کی۔ مولانا فرنگی سامراج اور اس کے گماشتے جن میں قادیانی ٹوڈی جاگیردار اور جعلی پیر سر فہرست تھے کو اپنی بے مثال شاعری کے اڑنگے پر لا کر ایسی پٹخنی دیتے کہ انہیں دن میں تارے نظر آنے لگتے۔
انگریزوں نے ہندوستان کی حکومت مسلمانوں سے چھےنی تھی، اس لئے اسے اپنی حکومت کے عدم استحکام کا خطرہ بھی ان کی طرف سے تھا۔ چنانچہ انہوں نے اپنے ایک پرانے وفادار کہ جس نے 1857ءکی جنگ آزادی میں اپنے ہم وطنوں کے خلاف ان کی مدد کی تھی، کے بیٹے مرزا غلام احمد قادیانی سے نبوت کا دعوےٰ کروا کر یہ فتویٰ حاصل کیا کہ نعوذ باللہ جہاد حرام ہو گیا ہے۔ مولانا نے اپنے شعری مجموعہ ارمغانِ قادیان کے ذریعہ اس نبوت کے داعی اور اس کے نام نہاد خلےفہ مرزا بشیرالدین محمود کے چہرہ سے جعلی تقدس کا نقاب نوچ کر عامتہ الناس کو اس کی اصلی صورت دکھا کر رسوا کر دیا۔
پنجاب اسمبلی کی عمارت کے پیچھے ایک سڑک جس کا نام کےپٹن انور الحق شہید روڈ رکھا گیا تھا خدا معلوم لاہور والے اس سڑک کو شہےد کے نام سے کیوں نہیں پکارتے۔ 31 سال گزر جانے کے باوجود اس سڑک کو غیر ملکی حکمرانوں کی فوج کے ایک جرنیل منٹگمری کے نام سے ہی بولتے اور لکھتے چلے آتے ہیں۔ اس فوج کا جرنیل جس کی فوج نے ہمارے آباﺅ اجداد کو غلام بنایا تھا اس سڑک پر ایک پر اسرار سی عمارت اب بھی موجود ہے جس پر ہر وقت دھول جمی رہتی ہے کبھی یہ عمارت سیسل ہوٹل کے نام سے لاہور کے ارباب نشاط کا مرکز و محور ہوا کرتی تھی۔ اس میں ایک اطالوی حسینہ مس روفو ناچنے گانے کا دھندا کیا کرتی تھی۔ سر ظفر اللہ خاں اس عمارت کے قرب و جوار میں ایک بنگلے میں رہا کرتا تھا۔ اس کے ”نبی کا خلیفہ ثانی“ بشیرالدےن محمود جب کبھی قادیان سے لاہور آتا تو اپنے باپ کے اس پیروکار کے پاس ٹھہرتا۔ اس آنے جانے میں مس روفو سے اس کی دوستی ہو گئی اور وہ اسے اپنے بچوں کی ٹیوٹر بنا کر قادیان لے گیا۔ لاہور کے ارباب نشاط اس اغوا بالرضا کے خلاف سراپا احتجاج بن گئے اور دادرسی کے لئے مولانا کے پاس پہنچے۔ دوسرے دن زمیندار میں ایک پھڑکتی ہوئی نظم شائع ہو گئی۔
مولانا ہندو، انگریز، مرزائی اور ٹوڈی جاگیرداروں سے بیک وقت چومکھی لڑتے اور سب کو چاروں شانے چت گراتے۔ ہندو اخبار اکٹھے مل کر زمیندار پر حملہ آور ہوتے مگر مولانا اپنے قلم کی طاقت سے انہیں ذلیل و رسوا کر کے پسپا کر دیتے۔ ایک دفعہ کرشن چند ناز نے اپنے اخبار میں ایک نظم شائع کی جس کا عنوان تھا ”بھتنے“ ۔ اگلے دن مولانا نے زمیندار میں اسی ردیف قافئے میں ایک زور دار نظم شائع کر دی۔ مولانا کے قلم کی جولانیوں نے زمیندار کا پلڑا ہمےشہ ہندو اخباروں پر بھاری رکھا۔ مزید فرمایا اللہ کا سایہ ہے زمیندار کے سر پر پنجاب کے سر پر ہے زمیندار کا سایہ مولانا دینی معاملات میں کبھی معذرت خواہانہ رویہ اختیار نہ کرتے۔ ایک مسلمان نوجوان عبدالرشید نے شاتم رسول شردھانند کو قتل کر دیا۔ مولانا نے علی الاعلان غازی عبدالرشید کا بھر پور ساتھ دیا۔ پنڈت مدن موہن مالویہ نے اپنے اخبار میں لکھا کہ سوامی شردھانند مرا نہیں بلکہ آسمان پر مسلمانوں کو شدھ کرنے (ہندو بنانے) کے لئے چلا گیا ہے۔ مولانا نے اس کا سخت نوٹس لیا اور زمیندار میں ایک تہلکہ خیز نظم شائع کر دی۔ مولانا ردیف قافئے اور بدیہہ گوئی کے شہنشاہ تھے اور اس میدان میں کوئی ان کا مدمقابل نہیں تھا۔مجلس احرار اسلام کے اخبار ”آزاد“ کے اجرا پر نوابزادہ نصر اللہ خاں اور آغا شورش کاشمیری پہلے پرچے کے لئے نظم حاصل کرنے کے لئے مولانا کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ مولانا نے طبیعت کی ناموزونی کا عذر کیا۔ ادھر سے اصرار ہوا کہ مولانا آپ صرف دو اشعار عطا کر دیں باقی نظم ہم مکمل کر لیں گے مولانا نے جو دو شعر عنایت کئے ملاحظہ فرمائیے۔ یہ کہہ دو کشور ہندوستاں کے بت پرستوں سے کہ نقش دین قسیم تا قیامت مٹ نہیں سکتا مسلماں طبل آزادی کے بجتے ہی بتا دے گا کہ اسلامی سیاست کا یہ مُہرہ پِٹ نہیں سکتا مولانا انگریزوں کے خلاف طویل جدوجہد کرتے رہے اورمختلف اوقات میں اپنی عمر عزیز کے 12سال نذر زنداں کر دیے۔ انگریز کی جیل کا تصور ہی انسان پر کپکپی طاری کر دیتا ہے۔ محمد کی شفاعت پر میری اس عرض کا حق ہے کہ آقا تیری خاطر میں نے چکی جیل میں پیسی ہم نے انگریز کے خلاف جہاد کرنے والوں کے ساتھ کیا سلوک کیا۔میں مجلس احرار اسلام اور خدائی خدمت گار تحریک کے جانباز اور جاں نثار رہنماﺅں کی بات نہیں کر رہا جنہوں نے اپنی زندگیوں کے بہترین حصے حصول آزادی کی خاطر حوالہ زنداں کر دیے۔ آپ انہیں کوئی کریڈٹ نہ دیں کہ وہ تحریک پاکستان سے لا تعلق رہے مگر جن صاحب عزیمت حضرات نے انگریز کے خلاف جہاد کے ساتھ ساتھ تحریک پاکستان میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہم نے انہیں کیا دیا۔ مولانا شبیر احمد عثمانی مولانا ظفر احمد انصاری اور جناب حمید نظامی کی کیا خدمت کی۔ کیا ہم نے ان کی ملی خدمات کے شایان شان کوئی ادارہ ان میں سے کسی کے نام پر قائم کیا۔ ہر گز نہیں۔ البتہ مملکت خداداد کی جڑےں کھوکھلی کرنے والے ایک بدکلام آمر غلام محمد کے نام پر دریائے سندھ پر غلام محمد بیراج بنایا اور میاں نواز شریف کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو سبوتاژ کرنے والے غلام اسحاق کے نام پر کروڑوں کے صرفہ سے جی آئی کے انسٹی ٹیوٹ بنایا۔ غلام اسحاق کے سپریم کورٹ کا فیصلہ نہ ماننے کے اقدام کے نتیجہ میں تمام ملکی ادارے تباہ ہوئے۔ صنعتیں برباد ہوئیں ملکی ترقی مکمل طور پر رک گئی اور نشیمنوں پہ بجلیوں کا کارواں گزر گیا۔