قوموں کی زندگی میں بعض واقعات اپنے زمانی تناظر میں، بظاہر اتنے اہم معلوم نہیں ہوتے، جتنے کہ بعدازاں ان کے نتائج انہیں بنا دیا کرتے ہیں۔ برطانوی ہند کی تاریخ میں 1937ءکے عام انتخابات بھی ایک ایسا ہی واقعہ تھے جو کہنے کو تو محض عام انتخابات تھے اور انتخابات بھی ایسے جن کے فوری نتیجہ کے طور پر مسلمانان ہندوستان کو ایک کڑی آزمائش کا سامنا کرنا پڑا لیکن انہی انتخابات نے مسلمانوں پر کانگرس کا وہ روپ منکشف کیا کہ جس کے بعد ہندوﺅں اور مسلمانوں کے مشترک سفر کا تصور اپنے انجام کو پہنچ گیا اور اسی انجام نے بالآخر آزادی کی منزل کو قریب تر کر دیا۔

1937ءکے مذکورہ عام انتخابات میں کانگرس نے ہندو اکثریت کے بل بوتے پر کامےابی حاصل کی نتائج کے مطابق کانگرس نے بنگال میں چون (54) پنجاب میں اٹھارہ (18) آسام میں بتےس (32) سندھ میں آٹھ (8) اور اڑیسہ میں چھتیس (36) نشستیں حاصل کیں۔ جب کہ مسلم لیگ بنگال، پنجاب اور آسام میں بالترتیب چالےس (40) دو (2) اور چار (4) نشستیں حاصل کر سکی، سندھ اور اڑےسہ میں مسلم لیگ نے کوئی نشست حاصل نہ کی۔

یہ نتائج تھے جن کی بنا پر کانگرس نے صوبوں میں اپنی وزارتیں قائم کیں۔ مسلمانوں نے کانگرس کی عددی اکثریت کے پیش نظر ان وزارتوں کے قیام کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی چونکہ اب تک ہندو اور مسلمان پیشتر محاذوں پر آزادی کی جنگ اکٹھے لڑتے آ رہے تھے اور دونوں قوموں میں چند برس پہلے میثاقِ لکھنو ایسا معاہدہ بھی ہو چکا تھا اس لئے کانگرسی وزارتوں کے قیام سے مسلمانان ہند کو کسی بہت بڑے خطرے کا اندیشہ نہیں تھا لیکن بنےاذہنیت، اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھتے ہی کام دکھانے لگی اور کانگرسی وزارتوں نے اپنے قیام کے ساتھ ہی مسلمانوں کے ساتھ معاندانہ رویے کا اظہار شروع کر دیا۔

انتخابات کا نتیجہ نکلنے کے بعد کانگرس کی ہائی کمان نے دہلی میں منتخب ارکان کا ایک کنونشن بلایا اور صوبائی اسمبلیوں کی پارٹیوں کو اس بات کا پابند کیا کہ وہ مرکز کی اجازت کے بغےر کسی پارٹی سے سمجھوتہ نہ کریں۔ اس طرح صوبوں کی سطح پر مسلم لیگ کے ساتھ مخلوط حکومتوں کے قیام کا راستہ روکنے کی ابتدا کی گئی۔ ساتھ ہی صوبوں کے گورنروں کو متنبہ کر دیا کہ کانگرس اپنے جیتے ہوئے چھ صوبوں میں اس وقت تک نہ تو کوئی وزارت بنائے گی اور نہ ہی بننے دے گی جب تک کہ ان صوبوں کے گورنر اقلیتوں سے متعلق اپنے خصوصی اختیارات کو استعمال نہ کرنے کا وعدہ نہ کریں، اس طرح مسلم لیگ کے ساتھ مخلوط حکومت کے قیام کے ایک اور امکان کی بیخ کنی کر دی گئی۔

ثالثاً کانگرس کی ہائی کمان نے مسلمانوں کو پارٹیوں کے ذریعے یا صوبائی پارلیمانی گروپ کی صورت میں بھی صوبائی کابےنہ میں نمائندگی دینے سے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ کانگرس مخلوط وزارتیں بنانے کے اصول کے خلاف ہے۔

یہ اقدامات اس لئے کئے گئے کہ مسلم ارکان اپنی الگ شناخت کے ساتھ نہیں بلکہ کانگرس میں مدغم ہو کر حکومت میں شامل ہونے پر مجبور ہو جائیں چنانچہ اس غرض کے لئے مسلم ماس کنٹکٹ (Muslim Mass Contact) کے نام سے ایک الگ شعبہ قائم کر کے اس کے تحت مہم چلائی گئی۔

یہ تمام اقدامات مسلم لیگ اور کانگرس کے راستے جدا کرنے کا سبب تھے لیکن کانگرس کی طرف سے اب تک اس امر کا اعلان نہیں کیا گیا تھا کہ وہ بطور پالیسی کے مسلم لیگ کی الگ حیثیت کو تسلیم نہیں کرتی، ان وزارتوں کے قیام پر پنڈت نہرو نے واضح لفظوں میں یہ اعلان کیا کہ ہندوستان میں جنگ آزادی کے دو فریق ہیں ایک کانگرس اور دوسرا برطانوی سامراج تیسری کوئی پارٹی نہیں ہے۔ جو لوگ آزادی چاہتے ہیں ان کے لئے کانگرس کے جھنڈے تلے آنے کے سوا کوئی چارہ نہیں اور جو ایسا نہیں کرتے وہ برطانوی حکومت کے آلہ ءکار ہیں۔ اس کے ساتھ ہی کانگرس نے ےہ واضح کر دیا کہ کانگرس کا کسی مسلم جماعت کے ساتھ سمجھوتے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

یہ تو وہ اقدامات تھے جو وزارتوں کے قیام اور تشکیل کے مرحلے پر کئے گئے۔ وزارتوں کے قائم ہو جانے کے بعد کانگرس نے بندے ماترم کو قومی ترانہ قرار دینے، تمام سرکاری عمارتوں پر کانگرس کے پرچم کے لہرائے جانے ، اردو کی جگہ ہندی کے نفاذ ،ہندی اساطیری اصولوں پر مبنی ودیا مندر سکیم کو سی پی (صوبہ) میں جاری کرنے، گائے کے ذبیحہ پر پابندی، ملازمتوں میں مسلمانوں کے مخصوص اور مقررہ حقوق پر شب خون مارنے اور ہندو مسلم فسادات میں ہندوﺅں کی حمایت اور عدالتوں میں مسلمانوں کے لئے حصول انصاف کی راہ میں روڑے اٹکانے کے اقدامات کئے جنہوں نے کانگرس سے رہی سہی امیدوں کا رشتہ بھی توڑ دیا۔

اب مسلمانوں کے لئے کانگرس کا چہرہ پہچاننے کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں رہ گئی تھی۔ اس مرحلے پر کانگرس سے وابستہ تمام خوش گمانیاں چکنا چور ہو گئیں اور بہت سے ایسے مسلمان رہنما جواب تک کانگرس کے ساتھ مل کر جدوجہد آزادی کے سفر میں شرکت کے قائل تھے، الگ راہوں کی طرف گامزن ہونے لگے۔

مولانا ظفر علی خان کا شمار بھی ان قوم پرست لیڈروں میں کیا جاتا تھا جو ہند و مسلم اتحاد کے نق یب اور کانگرس سے مل کر حصول آزادی کی منزل کی جانب بڑھنے کے قائل تھے، یوں تو مولانا، کراچی کانگرس کے اجلاس کے موقع پر نماز کے لئے وقت نہ دئیے جانے کے مسئلہ پر کانگر سسے ترک تعلق کر چکے تھے لیکن بعض دوسرے مسلم رہنمائں کی طرح ان کے ذہن میں بھی اب تک کانگرس کی جانب حسن ظن کے زاوئیے موجود تھے۔ لیکن 1937ءکی کانگرسی وزارتوں کی اس صورت حال کو دیکھ کر مولانا ظفر علی خان ایسے خوش خیال رہنما نے بھی کانگرس کی تائےد و حمایت کی پالےسیوں سے کا ملاً ہاتھ اٹھا لیا اور ان کی سیاسی سوچ میں بنےادی تبدےلےاں پیدا ہوئیں۔

مولانا کے ذہن میں پیدا ہونے والی ان تبدیلیوں نے انہیں مسلمانوں کی ایک ایسی نمائندہ جمعیت کی ضرورت کا احساس دلاےا جس کے تحت مسلمانان ہند اجتماعی طور پر اپنے حقوق کے لئے کوشش کر سکیں اور جداگانہ طور پر ہندوستان کی کامل آزادی کا مطالبہ کر سکیں۔

یوں تو اس زمانے میں مسلم لیگ ایک الگ جماعت کی حیثیت سے موجود تھی اور اس نے کانگرس کے مقابلے میں الیکشن بھی لڑا تھا لیکن ان انتخابات کے نتائج اس امر کا احساس دلاتے تھے کہ ےا تو مسلمانوں کو یکجا کرنے کے لئے ایک زیادہ وسیع اور مضبوط پلیٹ فارم تشکیل دیا جائے یا پھر مسلم لیگ کو اتنا فعال اور مضبوط کر دیا جائے کہ آئندہ انتخابات تک مسلم لیگ کم از کم مسلم اکثریت کے علاقوں میں تو کانگرس سے پیچھے نہ رہے۔

مولانا ظفر علی خان چونکہ پنجاب میں تھے اور وہ دیکھ رہے تھے کہ پنجاب ایسے صوبے میں بھی کانگرس نے اٹھارہ اور مسلم لیگ نے دو نشستیں حاصل کی ہیں۔ اس لئے انہیں اس امرکا احساس بہت زیادہ ہو ا کہ مسلم لیگ کا موجودہ ڈھانچہ ، بڑی سےاسی قوت بننے کا اہل نہیں ہے۔ اس خےال کے زیر اثر انہوں نے پنجاب کے مختلف راہنماﺅں سے مذاکرات کئے۔ ان راہمناﺅں میں حکیم الامت علامہ اقبال اور ملک برکت علی بھی شامل تھے۔ ان مذاکرات سے مولانا کو معلوم ہو ا کہ اس باب میں پنجاب کے دیگر اکابر سیاست بھی ان کے ہم نوا ہیں چنانچہ انہوں نے مناسب سمجھا کہ اس مقصد کے لئے قائد اعظم لاہور تشریف لائیں اور اس مسئلے کے مختلف پہلوﺅں پر غور و خوض کیا جائے۔ علامہ اقبال بھی اس مشورے میں شامل ہوں تا کہ آئندہ کے لئے مسلمانان ہند کی قوت کو متحد کر کے زیادہ بہتر طور پر موثر بنایا جا سکے۔

اس مقصد کے لئے مولانا ظفر علی خان نے 7مئی 1937ءکو قائد اعظم محمد علی جناح کے نام ایک خط لکھا۔ یہ خط مولانا ظفر علی خان کی سےاسی فکر کے ارتقاءاور مسلمانان پنجاب کی سےاست کے ایک نازک موڑ کے حوالے سے ہماری قومی تاریخ کی ایک اہم دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔ ذیل میں ہم اس نہاےت وقیع خط کا متن درج کر رہے ہیں یہ خط انگریزی میں ہے، ےہاں اس کا ترجمہ دیا جا رہا ہے لاہور7مئی 1937ئ ڈیئر مسٹر جناح کانگرس نے انتخاب میں چھ صوبوں میں کامےابی حاصل کرنے کے فوراً بعد اچانک یہ فیصلہ کیا ہے کہ مسلمانوں کی صفوں میں دراڑیں ڈال دی جائیں اور ہندوستان بھر میں ایک مہم چلا کر مسلم عوام کو اپنے جھنڈے تلے جمع کرلیا جائے۔

کانگرس کے اس فیصلے سے مجھ جیسے اشخاص کے دلوں میں شدید اضطراب پیدا ہو گیا ہے جو آپ کے ساتھ اس بات پر ےقین رکھتے ہیں کہ کانگرس جیسی ہندو اکثریت کی حامل جماعت میں اپنی الگ اور آزاد حیثیت کو ضم کر دینا ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے ایک انتہا درجے کا سےاسی المیہ ہو گا۔ بدقسمتی سے جمعیت علمائے ہند اور مجلس احرار کے کانگرس کی طرف جھکاﺅ نے پنڈت جواہر لعل نہرو اور ان کے حاشیہ برادروں کے ہاتھ مضبوط کر دئیے ہیں جو انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ مسلمانوں میں کانگرس کے حق میں پراپیگنڈا کر رہے ہیں نیز اس مقصد کے لئے کثیر رقوم بھی مختص کی گئی ہیں۔

لہٰذا وقت آ گیا ہے کہ مستقبل کے اس عظیم خطرے سے نبٹنے کے لئے مسلمانوں کی ایک متحدہ قومی جمعیت اور ایک متحدہ محاذ قائم کےا جائے۔ ہمارے ذہین طبقے کی ایک پر جوش جماعت نے جن کے ساتھ میں نے اسی مسئلہ پر گزشتہ چار ہفتوں کے دوران گفتگو کی ہے، مجھے صاف طور پر بتایا ہے کہ اگر ہماری پاس اپنا ایک پلیٹ فارم ہو جہاں سے ہم مکمل آزادی کا نعرہ بلند کر سکےں تو ہمیں کانگرس میں شامل ہونے کی کوئی ضرورت نہیں رہے گی اور میرے خیال میں وہ اس میں بالکل حق بجانب ہیں۔

ڈاکٹر اقبال اور ملک برکت علی بھی یہی رائے رکھتے ہیں اس لئے پنجاب مسلم لیگ نے اپنی مرکزی تنظیم کو یہ سفارش کی ہے کہ مسلم لیگ کا نصب العین ہندوستان کے لئے مکمل آزادی کا حصول ہونا چاہیے۔ ایک جمہوری لیگ جس کی رکنیت (فیس) چار آنے ہو اور جو عوام سے قریبی رابطے کی حامل ہو وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ ہزاروں نوجوان اس کے جھنڈے تلے جمع ہونے کو تیار ہوں گے اور ایک ایسی زبردست طاقت فراہم کریں گے جس سے اس کا ہمہ جہتی احترام بڑھے گا اور پھر پنڈت جواہر لعل نہرو کو یہ اعلان کرنے سے پہلے کئی بار سوچنا ہو گا کہ ہندوستان مےں صرف دو ہی طاقتےں ہےں جو اہمےت کی حامل ہےں (انگریز اور کانگرس) میں اولین فرصت میں آپ سے ان تمام امور پر بحث کرنے کا خواہش مند ہوں اور میں یہ جاننا چاہتا ہوں گا کہ آپ مجھے کب اور کہاں ملاقات کا موقع فراہم کر سکتے ہیں؟ میں چاہتا ہوں کہ آپ اس ماہ کسی وقت لاہور کا ایک طوفانی دورہ کریں جہاں ڈاکٹر اقبال کے مشورہ سے اس گمبھیر مسئلہ پر غور کرنے کی سہولت حاصل ہو گی۔ مجھے آپ کو یہ یاد دہانی کرانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ پنجاب بلآخر سیاسیات ہند کا مرکزی نقطہ ہے۔

مولانا ظفر علی خان
44- میکلوڈ روڈ لاہور
6مئی 1937ئ

اس خط کی اہمیت محض اس بات پر نہیں ہے کہ یہ دستاویز سےاسیات پنجاب کے ایک اہم موڑ پر مولانا ظفر علی خان کی جانب سے قائداعظم کو پنجاب بلانے کی دعوت ہے بلکہ یہ خط اس لئے بھی اہم ہے کہ اس کی مدد سے ہم مولانا ظفر علی خان کی ارتقاءپذیر سےاسی سوچ، قائد اعظم کے ساتھ ان کے ربط خاص اور سیاسیات ہند میں ان کی فعالیت کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ مولانا ظفر علی خان کا سیاسی سفر اگرچہ بہت مختلف منازل سے گزرتا رہا لیکن ان کے سیاسی سفر کی یہ منزل جس کا اظہار اس خط سے ہوتا ہے، زیادہ دیر پا ثابت ہوئی اور 1937ءمیں قائد اعظم کو پنجاب بلانے کی جس خواہش کے ساتھ یہ خط لکھا گیا اس نے آگے چل کر مولانا ظفر علی خان اور مسلم لیگ کو مستقلاً یک جا کر دیا۔ مولانا ظفر علی خان ایک عوامی لیڈر ہونے کے ناتے ہندوستان کے طول و عرض میں غیر معمولی تحریک کے ساتھ نئی لہر پھونک سکتے تھے۔ مسلم لیگ کے ساتھ ان کے تعلق کی پختگی نے ان کے اس تحرک کو مفید تر بنا دیا اور پاکستان کی منزل نزدیک آنے لگی۔

اس خط کی ایک اور اہم بات ، مولانا کا، پنجاب کو سیاسیات ہند کا مرکزی نکتہ قرار دینا ہے۔ ظفر علی خان روز اول سے اس خیال کے حامی تھے کہ ہندوستان کی آزادی کی تحریک میں بلآخر پنجاب ہی فیصلہ کن کردار ادا کرے گا۔ انہوں نے پنجاب کے عوام میں اس وقت سے بیداری کی جدوجہد شروع کی جب یہاں ٹوڈیوں کا طوطی بولتاتھا اور اس منزل تک جب پنجاب برطانوی ہند کی آزادی کی جدوجہد میں سب سے آگے آگےا اور پھر وہ منزل مراد پا لی گئی۔ مولانا ظفر علی خان کے کردار کی یہی خوبی تھی جس کی بنا پر ایک مرتبہ قائد اعظم نے فرمایا تھا۔ ”آپ مجھے اپنے صوبے میں مولانا ظفر علی خان جیسے دو چار آدمی دے دیں میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ پھر مسلمانوں کو کوئی شکست نہیں دے سکتا۔