یہ ستائیس نومبر 1967کی ایک صبح منور کا ذکر ہے، سکول اسمبلی میں ہمارے ہیڈماسٹر صاحب نے اپنے مختصر خطاب میں بتایا کہ آج ہماری تاریخ ادب و صحافت کے ایک درخشندہ ستارے اور تحریک پاکستان کے ممتاز راہنما مولانا ظفر علی خان کی گےارہویں برسی سے۔ اس موقع پر مولانا کی خدمات کے اعتراف اور انہیں خراج تحسین پیش کرنے کے لئے انہی کی ایک نظم، سکول کے ایک استاد، طلباءکے سامنے پیش کریں گے تاکہ طلباءمولانا ظفر علی خان کے نظریات ، ان کی سیاست و صحافت اور شاعری سے متعارف و آگاہ ہو سکیں۔ ہیڈ ماسٹر صاحب کے ان کلمات کے بعد جناب اعزاز احمد آذر نے نہایت ہی پر جوش انداز اور خوبصورت ادائیگی کے ساتھ مولانا کی نظم بعنوان ”رگڑے پہ رگڑا“ پڑھی جس کا ایک ایک شعر اور ایک ایک مصرعہ والہانہ انداز میں دلوں کے تار چھیڑتا اور گرما تا چلا گیا، خصوصاً نظم کے اس شعر
اک مست الست قلندر نے جب کفر کے چیلوں کو رگڑا
پہلے تو رگڑ نے ناک لگے پھر پاﺅں پڑے اور سر رگڑا
نے تو میرے قلب و ذہن کو اس طرح اپنے حصار اور سحر میں گرفتار کر لیاکہ میں اٹھتے بیٹھتے ہر وقت اس شعر کو گنگنانے لگا، مولانا ظفر علی خان کی حیات و خدمات کو زیادہ جانے بغیر یہ میرا مولانا سے پہلا تعارف تھا تا ہم مولانا کے بارے میں میری معلومات میں اضافہ اس وقت ہوا جب میرے والد گرامی نے مجھے مولانا مرحوم کا مذکورہ بالا شعر اٹھتے بیٹھتے گنگناتے ہوئے سن کر مجھ سے پوچھا کہ، کیا تم بتا سکتے ہوکہ مولانا ظفر علی خاں کی اس نظم کی وجہ تسمیہ اور اس کی تخلیق کا پس منظر کیا ہے۔ ظاہر ہے میں اس معاملے میں بالکل کورا تھا۔ چنانچہ میرے والد گرامی نے میری خاموشی میں جواب تلاش کر لیا اور پھر اسی شب عشاءکی نماز کے بعد سونے سے پہلے مجھے اپنے پاس بٹھا کر مولانا ظفر علی خاں کی شخصیت، حیات و خدمات ، افکار و کردار اور ان کی حق گوئی و بے باکی پر اتنا تفصیلی و سحر انگیز لیکچر دیا کہ اپنے والد محترم کی طرح میں بھی مولانا ظفر علی خاں کے عشاق میں شامل ہو گیا۔ مولانا کی ذات گرامی سے تعارف وآگہی اور ان کے سحر میں گرفتاری کے درمیان محض چند ایام کا سفر، میرا مقدر ٹھہرا ۔ ان کے عشق میں سرشاری کا یہ سفر جو آج بھی جاری ہے جو 38برسوں پر محیط ہے تب یعنی 1967میں، میں چھٹی جماعت کا طالب علم تھا اور آج دشت علم و ادب اور صحافت میں سلور جوبلی، 25سال، مکمل کر کے بعد اس مقام پر کھڑا ہوں جہاں مرحوم حفیظ جالندھری مرحوم کا یہ مصرعہ مجھ پہ صادق آتا ہے
یہ نصف صدی کا قصہ ہے، دو چار برس کی بات نہیں
آج مولانا ظفر علی خاں مرحوم کی برسی پر انہیں یاد کرنے اور ان کے بارے میں کچھ لکھنے بیٹھا ہوں تو واقعتاً قلم عاجز ہوکر رہ گیا ہے کہ کہاں وہ عظیم بطل حریت، مجاہد آزادی، شعلہ فگار طرز بیاں کا خطیب، صاحب فکر و کردار، پیکر علم و دانش، بابائے صحافت اور کہاں یہ تہی دامن، کیا میں اور کیا میرا قلم ، یوں جب سوچتا ہوں کہ کیونکر اس محسن قوم و ملت اور خادم مذہب و دین کو خراج پیش کروں تو ہر سمت سوالیہ نشان ہی ابھرنے اور واضح ہونے لگتے ہیں
دہر میں انتخاب تھا وہ شخص
آپ اپنا جواب تھا وہ شخص
یہ محض میری عقیدت نہیں، تاریخ شاہد ہے کہ مولانا ظفر علی خاں بلا شبہ ہفت پہلو، ہمہ صفت موصوف، شخصیت تھے، اور ان کی ذات کا کوئی ایک پہلو بھی ایسا نہ تھا جو ان کے تشخص اورپہچان کا معتبر حوالہ نہ رکھتا ہو۔ تحریک پاکستان میں ان کے کردار و حصہ کی بات ہو یا صحافت و سیاست اور شاعری کا تذکرہ، ذکر ان کی شعلہ بیانیوں کا ہو یا ان کی ترجمہ نگاری موضوع سخن ہو، وہ ہر جگہ بلند قامت، صاحب عظمت و کردار اور روشنی کے مینار کی طرح نظر آتے ہیں۔ سچی بات ہے کہ میری یہ تحریر اور میری یہ سطور مولانا ظفر علی خاں سے میری عقیدت کا اظہار تو ہو سکتی ہیں ان کے بارے میں یا ان کے حوالے سے ان کی حیثیت جناب احمد فراز کے اس شعر میں کہی گئی بات سے زیادہ نہیں
تیرے ہوتے ہوئے محفل میں جلاتے ہیں چراغ
لوگ کیا سادہ ہیں سورج کو دکھاتے ہیں چراغ
مولانا ظفر علی خاں کو ان کی خدمات پر خراج تحسین پیش کرنا بھی کوئی آسان بات اور کام نہیں۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ تحریک پاکستان اور صحافت و سیاست کے حوالے سے مولانا کی خدمات کا جائز طور پر تعین نہیں کیا گیا، تو اس کی وجہ بھی دراصل یہ ہے کہ ہم آج بھی تعصب کی عینکیں نہیں اتار سکے۔ ہم میں سے بہت سوں کو یہ بھی دکھ اور تکلیف ہے کہ مولانا ظفر علی خاں ”اردو اشرافیہ“ میں سے کیوں نہیں ، وہ پنجابی کیوں ہیں؟؟
میں نے مولانا ظفر علی خاں کی شخصیت، ان کے کام، ان کے کردار اور ان کی خدمت و افکار کے حوالے سے جوں جوں آگہی حاصل کی، یقین کیجئے توں توں مجھے ان شخصیت بلند قامت اور خدمات کا دائرہ وسیع تر ہوتا ہوا لگا، مولانا کی ذات سے میری عقیدت اور محبت بلکہ عشق کا ایک حوالہ، مولانا کی عشق رسول صلى الله عليه وسلم سے سر شار، نبی صلى الله عليه وسلم کی محبت اور چاہت میں کہی گئی وہ بے مثل نعتیں ہی ہیں جنہوں نے انہیں ایک بڑے اور زندہ تر شاعر کے طور پر بھی ایک افضل مقام سے سرفراز کیا ہے، وہ کہتے ہیں:
دل جس سے زندہ ہے وہ تمنا تمہی تو ہو
ہم جس میں بس رہے ہیں وہ دنیا تمہی تو ہو
جلتے ہیں جبرائیلؑ کے پر جس مقام پر
اس کی حقیقتوں کے شناسا تمہی تو ہواور پھر
وہ شمع اجالا جس نے کیا چالیس برس تک غاروں میں
ایک روز جھلکنے والی تھی سب دنیا کے درباروں میں
جو فلسفیوں سے حل نہ ہوا اور نکتہ وروں سے کھل نہ سکا
مولانا ظفر علی خاں سے میرا عشق اور عقیدت اپنی جگہ پر، مگر یہ ان کے کردار کی عظمت، مزاج کی بے خوفی اور طبیعت کی بے باکی تھی کہ انہوں نے تمام عمر کبھی مصلحت آمیزی نہ کی۔ جہاں انہوں نے انگریز سامراج اور ہندو بنیئے کے سامنے حق و صداقت کا پرچم سر بلند رکھا وہاں وہ اپنے مسلمان ساتھیوں دوستوں، رفیقوں، اور قائدین کے سامنے بھی اپنی پر خلوص آراءکا اظہار کرتے ہوئے کبھی نہ چوکتے۔ دل کی بات زبان پر لاتے ہوئے لمحہ بھر کی تاخیر نہ کرتے۔ اپنے قائدین اور مسلم اکابرین کی عزت و تکریم انہیں دل و جان سے عزیز تھی، مگر حصول مقصد اور حصول منزل کی راہ میں کوئی رکاوٹ برداشت نہ کرتے۔ تحریک پاکستان کے ممتاز کارکن جناب احمد سعید کرمانی بتاتے ہیں اور یہ بات تاریخ کا حصہ ہے کہ جب 1940ءمیں قرارداد لاہور کا مسودہ لکھنے کا کام مولانا ظفر علی خاں نے مکمل کر لیا، تو جناب قائد اعظم نے اس کا مطالعہ کرنے کے بعد مولانا سے کہا “Put wisdom in it” اور پھر یہ مسودہ دوبارہ تحریر کرنے کے لیے ملک برکت علی کو دے دیا، جب ملک برکت علی نے یہ مسودہ مکمل کر کے قائد اعظم کی خدمت مےں پیش کیا تو قائد اعظم نے مولانا سے اس کے بارے میں ان کی رائے طلب کی، مولانا، جو دل کی بات زبان پر لانے میں ذرہ بھر مصلحت آمیزی سے کام نہ لیتے تھے، یکدم گویا ہوئے ، “Put Heart in It”
کرمانی صاحب بتاتے ہیں کہ مولانا کی حاضر جوابی، بے باکی ، صاف گوئی اور جرات قائد اعظم محمد علی جناح بھی بہت پسند کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے مولانا کی رائے کے احترام میں ملک برکت علی کے تحریر کردہ مسودے میں چند ضروری ترامیم کرائیں جن کی طرف Put Heart in it کہہ کر مولانا ظفر علی خان نے اشارہ کیا تھا،
مختصر یہ کہ مولانا ظفر علی خاں کی زندگی بلا شبہ روشنی کا استعارہ اور مینارہ نور کی حیثیت رکھتی ہے۔ مولانا اصول فطرت کے تقاضوں کے ساتھ زندگی گزار کر چلے گئے۔ اب ان کی یادیں اور باتیں ہی ہمارا سرمایہ ہیں
اب نہ آئے گا نظر ایسا کمالِ علم و فن
گو بہت آئیں گے دنیا میں رجالِ علم و فن