ادبی خدمات
مولانا ظفرعلی خاں ایک نابغہ روزگار بطلِ جلیل اور کثیرالاستعداد فردفرید تھے۔ تعلیم وتعلم کا ماحول انہیں گھر ہی سے میسر آگیا تھا۔ ان کے والد مولوی سراج الدین احمد خاں اور دادا کرم الٰہی خاں علوم شرقیہ کے متبحرعالم تھے۔ مولانا کے دادا سیالکوٹ مشن سکول کے ہیڈ ماسٹر بھی رہے تھے۔ انہوں نے اپنے بیٹے سراج الدین احمد کو اپنا علمی وادبی ورثہ مکمل طور پرمنتقل کیا۔ سراج الدین احمد نے انگریزی زبان وادب میں بھی دسترس حاصل کررکھی تھی۔ ”ان کا پورا خاندان بھائی بہنیں بھانجے بھتیجے ادب وشعر اور تعلیم وتعلم میں خاص شہرت کے مالک رہے ہیں“۔مولانا کے ایک چھوٹے بھائی پروفیسر حمیداحمد خاں پنجاب یونیورسٹی کے انتہائی کامیاب وائس چانسلر رہے ہیں۔ مولانا ظفرعلی خاں کے والد علمی ،ادبی ،صحافتی اور تعلیمی ورثے کے سب سے اہم جانشین بنے۔علم اوردرس وتدریس ان کے خانوادہ کے گرد گھومتے محسوس ہوتے ہیں۔ مولانا ظفرعلی خاں نے بھی تعلیم حاصل کرنے کو اپنا موروثی فرض سمجھ کرنہایت ذمہ داری سے اسے نبھایا ۔لہذا انہوں نے اس دور کے معروف تعلیمی اداروں میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔
مہندرہ کالج پٹیالہ سے میٹرک پاس کرکے اپنے پھوپھا مولوی عبدالله خاں جوخود عربی اور فارسی کے پروفیسر تھے، کے مشورے پر علی گڑ کالج میں داخل ہو گئے۔ یہ وہی دور ہے کہ جب برعظیم پاک وہند کے صاحب حیثیت لوگ اپنے ہونہار طالب علموں کو کیمرج ،آکسفورڈ یا علی گڑھ تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیجا کرتے تھے۔ علی گڑ ھ میں اس عہد میں علامہ شبلی نعمانی، آرنلڈ اور مارلیسن جیسے ماہرین تعلیم اساتذہ بھی موجود تھے۔علی گڑھ کالج میں ظفرعلی خاں کا شمار ذہین ترین طلبہ میں ہوتا تھا۔ وہاں وہ کالج میگزین کی ادارت کے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔ وہ کھیلوں کے میدان میں بھی ایک امتیازی مقام رکھتے تھے ۔
مولانا ظفرعلی خاں نے ایک زیرک اورپرذوق طالب علم کے طور پر ہمہ وقت حصول علم اور اکتساب تعلیم پر اپنی پوری توجہ مرکوز رکھی۔ علی گڑھ کالج کے دوران میں انہوں نے عربی ،فارسی اور انگریزی زبانوں میں پورے شوق کے ساتھ بھرپور دسترس حاصل کرلی تھی۔ وہیں پر فارسی زبان میں شاعری بھی کرنے لگے تھے۔
یوں وہ اپنی تعلیم وتربیت کے حصول کے لیے بھی بہتر سے بہتر کی تلا ش میں رہے۔علی گڑھ کالج سے بی اے کرنے کے بعد علامہ شبلی نعمانی کی وساطت سے وہ محسن الملک کے سیکرٹری کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔اس کے بعد وہ کچھ عرصہ بمبئی چلے گئے۔ انہوں نے قیام بمبئی کے دوران ”السٹریٹڈ ویکلی“ اور” ٹائمز آف انڈیا“ میں بھی کئی مقالات لکھے۔ اس طرح ان کی زبان وبیان دونوں ہر مرحلہ اور ہر دور میں نئے سے نئے آفاق وافلاک سے متعارف ہوتے رہے۔
مولانا ظفرعلی خاں نے جس بھی زبان میں دسترس حاصل کی اسے اپنی بے پناہ ذہانت ،لگن اوراختراعی طبیعت کے باوصف نئے الفاظ واصوات اوراصطلاحات وتراکیب سے متمول کیا۔ دوسری زبانوں (عربی، فارسی اور انگریزی)پر وہ اردو ہی کی طرح کامل دسترس رکھتے تھے۔ محسن الملک کے سیکرٹری کی حیثیت سے اورپھر حیدر آباد کے قیام کے دوران انہوں نے انگریزی زبان کی کئی ایک شاہکار کتابیں اردو زبان میں بڑی ذمہ داری کے ساتھ ترجمہ کیں۔ اٹھائیس سال کی عمر (1901ء)میں انہوں نے رڈیارڈ کپلنگ کی کتاب” جنگل بک“ کا”جنگل میں منگل“غالباً سب سے پہلا ترجمہ اردو زبان میں کیا۔ اسی طرح مولانا نے حیدر آباد دکن ہی کے دورا ن میں دوپرچے “دکن ریویو“ Deccan Reviewاور ماہوار”افسانہ “بھی جاری کیے۔ علاوہ اس کے بھی انہوں نے انگریزی کی کئی کتابیں حیدر آباد ہی میں ترجمہ کیں۔ اس کے بعد انہوں نے اردو کتاب ”الفاروق “ (ازشبلی نعمانی ) کا انگریزی ترجمہ ”عمر دی گریٹ“ کے نام سے کیا۔ وہ جس بھی زبان میں لکھتے رہے اپنے عالمانہ اور سنجیدہ علمی اور تعلیمی معیار کو برقرار رکھتے رہے۔ مولانا کا یہ کردار آج ہر طالب علم کے لئے مشعل راہ ہے۔
برعظیم پاک وہند کی تاریخِ صحافت میں مولاناظفرعلی خاں کا سب سے بڑا کارنامہ روزنامہ ”زمیندار“ کونامساعد حالات میں بھی مسلسل جاری رکھنا ہے۔”زمیندار“ اخبار مولانا کے والد مولانا سراج الدین احمد خاں(1858-1909)نے1903ء میں شروع کیاتھا۔ والد کی وفات کے بعد مولاناظفرعلی خاں نے 1911ء میں”زمیندار“ کو لاہور میں لانے کے بعد اس کی مکمل ذمہ داری سنبھال لی۔ اخبار ”زمیندار“ ہندوستان بھر کے سیاسی ، سماجی ،ثقافتی اور اقتصادی میدانوں میں اپنا بھرپور کردار ادا کرتا رہا۔ مسلمانوں کے جداگانہ تشخص ،آزادیٴ وطن اور ترقی کے ساتھ ساتھ حقوق وفرائض کے لیے بھی سب سے اہم خدمات انجام دیتا رہا۔
مولانا ظفرعلی خاں جس بھی شعبہ فکر وفن سے وابستہ رہے اسے انہوں نے بجا طور پر ایک وقار ،عروج اور عزت بخشی۔ انہوں نے صحافت کو نئے رجحان سے فیضیاب کیا۔صحافت کو راست بازی ، حقیقت پسندی اور اظہار وبیان کی بے باکی سے آراستہ کیا۔ وہ صحافت برائے صحافت کے بجائے صحافت برائے حصولِ مقاصد کے موجد تھے۔ یوں وہ اپنے دور کی صحافت میں سب سے بڑے کمیٹڈCommittedاور اپنے مشن پر سب سے زیادہ کاربند رہے۔ مولانا ظفرعلی خاں نے صحافت کواعلیٰ معیارات اور نئے سے نئے زاویوں سے متصف کیا۔انہوں نے صحافت کو انگنت نئی اصطلاحات ، عمدہ اور پرذوق علمی وادبی تراکیب اور دوسری زبانوں کی ٹرمینالوجی کے اردو زبان کے بامعنی اور جلد مقبول ہوجانے والے تراجم سے بھی اردو زبان کو مالا مال کیا۔
مولانا ظفرعلی خاں ایک بلند پایہ اور شستہ افکار شاعر ،شعلہ بیاں مقرر اور ایک صاف دامن سیاستدان بھی تھے۔انہوں نے انگریز سامراج سے سمجھوتہ کرنے کی بجائے قیدوبند اور مالی نقصان برداشت کیا۔شعر وشاعری میں انہیں بے پناہ قدرت حاصل تھی۔فنی اسرارورموز اور سلاست وروانی اور غنائی اوصاف جو انہیں حاصل تھے وہ دوسروں کو کم کم ہی نصیب ہوئے۔
مولانا ظفرعلی خاں تمام اصنافِ شعر میں اظہار خیال کرنے والے ایک پرگو شاعر تھے ۔ان کے شعری مجموعے پرتقدس حمدوں،عقیدت بھری نعتوں اور بے شمار اسلامی تاریخی واقعات ، اہم ملکی وملی موضوعات پرنظموں سے معمور ہیں۔ اس پر مستزاد مولانا ظفرعلی خاں نے اپنی شاعری کو بھی مقصد بدوش بناکر جستجو ئے آزادی وطن ، راست بازی اور بے باکی سے مزین رکھا۔ مولانا ظفرعلی خاں کی شاعری بھی کئی طرح سے حریّت وآزادی کی ایک داستان مرتب کرتی ہے۔
الحمدﷲ،ظفر علی خان ٹرسٹ ،روزنامہ ”زمیندار“ کے اداریوں کا انتخاب کرکے ترتیب دے کر چھاپنے کےایک بڑے منصوبے کا آغاز کر چکا ہے وہ ایک اہم قومی منصوبہ ہے۔ اس کی تکمیل سے ہمیں آزادیٴ وطن کی خاطر جدوجہد کاایک ہمہ پہلو انسائیکلو پیڈیا میسرآجائے گا۔ 1923ء کے اداریوں کے تین مجموعے چھپ چکے ہیں۔ دیگر حصوں پر تیزی سے کام جاری ہے۔۔ مزید اس سلسلے میں پنجاب یونیورسٹی میں”مولانا ظفرعلی خاں چیئر“کا قیام بھی عمل میں آچکا ہے۔ ادارہ علوم ابلاغیات کے فیکلٹی ممبران گاہے گاہے مولانا ظفرعلی خاں ٹرسٹ کی اہمیت کے بارے میں نوجوان طالب علموں کو آگاہ کرتے رہتے ہیں۔ شعبے اور ادارے کے قیام سے طلبہ وطالبات کو مولانا کی صحافتی خدمات کے بارے میں بطور نصاب پڑھایا جاتا ہے۔
( اقتباسِ تحریر ڈاکٹر احسن اختر ناز)