سیاسی و ملّی خدمات
بیدارئ ملت کی تحریکوں کے محسنوں، رہنماؤں اور قائدین میں مولانا ظفر علی خاں سرِفہرست ہیں کہ انہوں نے نہ صرف تحریکِ پاکستان بلکہ تحریکِ آزادی میں بھرپور کرداراداکیا۔ وہ افرنگ کے خلاف ”چومکھی“ لڑتے رہے۔جس دور میں مولانا ظفرعلی خاں افقِ سیاست پر نمودارہوئے تھے۔ اس دور میں سیاست میں قیدوبند کی صعوبتیں تھیں، ”دارورسن“ کے راستے تھے۔ آج کا زمانہ نہیں تھا کہ جیل بھی”دوسراگھر“ ہوا کرتا ہے۔مولانا ظفر علی خاں نے جب ایم اے او کالج علی گڑھ سے گریجویشن کی تو مسلمان گریجوایٹ انگلیوں پر گنے جا سکتے تھے۔ مولانا چاہتے تو انڈین سروس میں جا سکتے تھے۔ اعلیٰ عہدے حاصل کر سکتے تھے لیکن انہوں نے ہندوستان کوانگریز سے آزاد کرانے کے لیے اپنا سب کچھ وقف کردیا کہ اس مشن کی تکمیل کے لیے یہ ذریعہ،طریقہ استعمال کیا۔ ان کے والدگرامی مولوی سراج الدین احمدنے 1903ء میں زمینداراخبار نکالا تھا۔ مولانا نے اس اخبار کوروزنامہ کرکے”قومی اخبار“ بنادیا۔ یہ ہندوستان کے مسلمانوں کی آواز بن گیا۔ کون ہے جس نے ”زمیندار“کا نام نہیں سنا۔”بغاوت“کے الزام میں ایک نہیں بار بار ”زمیندار“ سے ضمانت طلب کی گئی۔پریس اور اخبار بند ہوا لیکن ”وقت کے اس منصور“ کوکوئی سزا،کوئی قید اپنے مشن سے دور نہ کرسکی۔ مولانا ظفر علی خاں ایک طرف قلم سے افرنگ پر حملہ کرتے تودوسری جانب ”شعلہ نوا مقرر“ کی حیثیت سے ان کی آواز جلسہ گاہ میں موجودلوگوں میں بیداری کی شمع روشن کرتی اور پھران کی نظمیں دلوں کوگرماتی کہ لوگ دیوانہ وار سڑکوں پر نکل آتے اور آزادی کے حق میں نعرے گونج اٹھتے۔مولانا ظفر علی خاں کاایک اور مشن یہ تھا کہ علی گڑھ کالج کویونیورسٹی بنایاجائے۔ اس حوالے سے چندہ اکٹھا کرنے کے لیے حیدرآباد دکن اور دوسرے شہر جاتے۔جہاں صاحبِ ثروت لوگوں کو اکٹھا کر کے چندہ وصول کیاجاتا۔ایم اے او کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دینے میں مولانا ظفر علی خاں کا ”بڑااہم حصہ“ ہے کہ انہیں اپنی مادرِعلمی ہی نہیں سرسیداحمد خاں کے مقصدومشن سے بڑاپیار تھا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو مولانا ظفر علی خاں اور مولانا ظفر علی خاں کو ”علیگ“ ہونے پر بڑافخر تھا۔ (علی گڑھ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل اپنے نام کے ساتھ علیگ لکھا کرتے تھے اوریہ ان کے درمیان ایک دوستی اور تعلق کا رشتہ تھا) مولانا ظفر علی خاں تحریکِ آزادی اور تحریکِ پاکستان کے صف ِ اول کے قائدین میں شامل تھے۔انہوں نے مسلم اُمہ کی بیداری اور انہیں منظم کرنے کے لیے نیلی پوش تحریکِ کے نام سے ایک تنظیم بھی قائم کی۔ وہ تحریکِ ختم ِنبوت کے داعی اورقائد تھے ۔ ان کے اخبار” زمیندار“ نے قادیانیوں کے خلاف تحریک میں بھرپور کردار ادا کیا، مولانا ظفر علی خاں الله کے سپاہی تھے جنہوں نے آخری سانس تک اسلام اورپاکستان کی خدمت کی اور اسی کی جنگ لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔
زندہ قومیں اپنے محسنوں کویاد رکھتی ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان محسنوں کی زندگیاں نئی نسل کے لیے مشعل راہ ہوتی ہیں۔انہیں کے بنائے ہوئے راستوں پر چل کر ہی منزل حاصل کی جا سکتی ہے۔ آج نئی نسل سوال کرتی ہے کہ ہمارے محسن، عظیم لیڈر کون تھے جنہوں نے ہمیں صحیح راہ دکھائی۔ اہلِ صحافت و دانش کا یہ قومی فرض ہے کہ مولانا ظفر علی خاں اور دوسرے ایسے مشاہیر کی شایانِ شان یادگاریں قائم کی جائیں۔ ایسا کر کے ہم کسی پر احسان نہیں کریں گے بلکہ ”زندہ قوم“ ہونے کا ثبوت فراہم کریں گے۔
( اقتباسِ تحریرسید انور قدوائی)